کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 60
کے لئے رحمت للعالمین اور انسانیت کا محسن ومعلم بنا کر بھیجا ہے حتیٰ کہ آپ کی یہ فضیلت اور امامت سابقہ تمام انبیا پر بھی حاوی ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء میں کفار اور عاصیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِيْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِيْدًا. صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۰۰۴۱ يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ. وَ لَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا (آیت:41) ’’ پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔ اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے کفر کیا اور رسول کے نافرمان رہے، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔‘‘ اس آیت ِمبارکہ میں کفار اور عاصیانِ رسول کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت قرار دیا گیا ہے، جنہیں شرعی اصطلاح میں ’اُمت ِدعوت‘ کہا جاتاہے۔اس اُمت پر بھی اسلام کی رو سے آپ کا حق احترام واجب ہوتا ہے۔ایک اور مقام پر بھی قرآنِ کریم میں ہے : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 6 آزادئ اظہار کا جدید تصوربھی ، انسانی آزادی اور اظہارِ رائے کے حق کو اُس حد تک محدود کرتا ہے جہاں اس سے کوئی دوسرا متاثر نہ ہو۔ آزادیٔ اظہار کی یہ حد بندی صرف ایک مسلمہ حقیقت نہیں بلکہ یورپی کنونشن کا چارٹر اس کو قانونی حیثیت بھی عطا کرتا ہے۔ جس کی رو سے ’’آزادیٔ خیالات کے ان حقوق پر معاشرے میں موجود قوانین کے دائرہ کار کے اندر ہی عمل کیا جاسکتا ہے، تاکہیہ آزادیاں کسی دوسرے فرد یاکمیونٹی کے تحفظ،امن وامان اور دیگر افراد یا کمیونٹی کے حقوق اور آزادیوں کو سلب کرنے کا ذریعہ نہ بنیں ۔‘‘ (مجریہ 1950،روم) یوں بھی یہ مطالبہ ہی ایک مہذب معاشرے میں کراہت آمیز ہے کہ انسانیت کی مسلمہ مقدس اور محسن شخصیت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو پامال کرنے کو انسانی حق قرار دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سے پوری دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یعنی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل شکنی اور دل آزاری ہوتی ہے۔انسانی حقوق کے ایسے تصور جن سےایسے رویے استدلال لیتے