کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 6
سلمان تاثیر کا قتل کیا ایک مظلوم عورت آسیہ مسیح کی مدد کی سزا ہے؟ اگر ہمارے حکمران عوام میں ہونے والے کسی ظلم کے خلاف ان کی داد رسی کے لئے کھڑے ہوں تو یہ ایک قابل قدر امر ہے اور ہر شریف انسان اس کی تائید کرے گا، لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں کا ماضی اس کردار سے آشنا نہیں ۔ درحقیقت سلمان تاثیر نے کسی مظلوم عورت کی مدد نہیں کی، بلکہ ایسی عورت جو نہ صرف توہین رسالت بلکہ توہین قرآن اور توہین ازواجِ مطہرات کی مرتکب ہے اور کئی بار اس کا اعتراف کرچکی ہے، سیشن کورٹ کے جج نے سال بھر کی تفصیلی سماعت کے بعد اس کو توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور موت کی سزا سنائی ہے، ایسی عورت کو سلمان تاثیر نے بری قرار دے کر ، توہین رسالت کے خلاف اپنے داخلی رجحانات کی نشاندہی اور پاکستان کے عدالتی نظام پر بے اعتمادی کا برملا اظہار کیا ہے۔ اور بعدازاں یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں جو کچھ کرتا ہوں ، اس پر یقین رکھتا ہوں ۔ گورنر تو قانون کا محافظ اور سربراہِ مملکت کا نمائندہ ہوتا ہے لیکن یہی صوبے کا قانونی سربراہ اگر قانون شکنی کو اپنی پہچان بنا لے اور عدالتی نظام کو بھی پس پشت ڈال دے تو عوام الناس کے لئے اس سے کیا پیغام ملتا ہے۔یہ سلمان تاثیر ہی تھے، جنہوں نے گذشتہ سال بسنت کے موقع پر قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کے باوجود کھلم کھلا یہ کہا تھا کہ میں تو گورنر ہاؤس میں پتنگ بازی کروں گا !! اگر آسیہ مسیح توہین رسالت کے علاوہ کسی اور جرم کی مرتکب ہوتی تو سلمان تاثیر اس کو کبھی معصوم اور مظلوم بی بی قرار نہ دیتے۔ ان کا یہ صفائی نامہ اور اپنی بیٹیوں اور بیوی کے ہمراہ جاکر اس سے اظہارِ ہمدردی کرنے کا پروٹو کول آسیہ مسیح کو قطعاً حاصل نہ ہوتا۔توہین رسالت کے واضح ارتکاب اور مکرر اعتراف کے باوجود آسیہ کے بارے میں معمولی سی ذہنی خلش اور نفرت کا بھی پیدا نہ ہونا گورنر کے دل میں دینی غیرت و حمیت کے خاتمے کی دلیل ہے۔ایسے ہی موقع پر اللہ نے قرآنِ کریم میں یہ تعجب آمیز انداز اختیار کیا ہے: قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰيٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ’’کیاتمہیں تمسخر اور استہزا کے لئے اللہ ، اس کی آیات اور اس کا رسول ہی ملتے ہیں ۔‘‘