کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 59
’’جو کوئی اللہ کو گالی دے، یا انبیا کو گالی دے، تو اس کو قتل کردیا جائے۔‘‘ 4 اسلام ایک الہامی شریعت کے ساتھ ساتھ ایک کامل نظریۂ حیات بھی ہے، جس میں سیکولرزم کی طرح پرائیویٹ اور پبلک کی کوئی تقسیم نہیں ہے، نہ ہی دین ودنیا کی کوئی تقسیم موجود ہے۔ چنانچہ اسلام کے سیاسی نظم کا تقاضا یہ ہے کہ دار الاسلام میں اسلامی قوانین کی پاسداری کی جائے۔اگر دار الاسلام میں غیرمسلم لوگ چوری کریں تو ان پر اسلام کا قانونِ سرقہ یعنی قطع ید کو نافذ کیا جائے گا، جیسا کہ موسوعۃ الاجماع میں ہے: إن إجماع المسلمین علی أن المسلم تقطع یدہ إذا سرق مالاً لمسلم ولغیرمسلم، وعلى أن غیر المسلم یقطع بسرقة مال المسلم ومال غیرالمسلم [1] ’’اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ ایسے مسلمان شخص کا ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی دوسرے مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔ اسی طرح ایسے غیر مسلم شخص کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔‘‘ جیسے کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ توہین رسالت ایک قابل سزا جرم اور اسلام کا پبلک قانون ہے جس کی پابندی اسلامی ریاست کے تمام شہریوں کو کرنا ہوگی۔دارالاسلام میں ذمی حضرات اسی صورت میں رہ سکتے ہیں جب وہ ریاستی قانون کی پابندی کریں گے۔ بصورتِ دیگر ذمی حضرات کا عہد اورامان نامہ ٹوٹ جائے گا۔دورِ نبوی میں مدینہ منورہ میں کعب بن اشرف، بنوخطمہ کی گستاخ عورت اورابو رافع سلام بن الحقیق وغیرہ کے گستاخی رسول پر قتل کے رائیگاں جانے کی شرعی اساس یہی ہے۔ 5 اسلام کی رو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تمام انسان، آپ کی اُمت کا حصہ ہیں ۔ چاہے وہ آپ کی دعوت کو قبول کرکے اُمت ِاجابت کی سعادت حاصل کریں یا قبول نہ کرکے اُمت ِدعوت کی حیثیت پر برقرار رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات
[1] موسوعة الإجماع في الفقه الإسلامي: 1/342 مزيد تفصيل كے لئے دیکھیں مضمون: غیرمسلموں پر شرعی قوانین کا نفاذ (ماہنامہ ’محدث‘ جون 2010ء)