کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 58
قرار دیا۔ [1] 7. سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنے دورِ خلافت میں بحرین کے بشپ کی گستاخی پر اس کے قتل پر اظہارِ اطمینان کیا۔ 8. مکہ مکرمہ اور مدینہ کے ابتدائی سالوں میں دشنام طرازی کرنے والے مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے خود نشانِ عبرت بنا کر موت سےہم کنار کیا۔ ان تمام صورتوں میں کسی کے ذہن میں یہ شبہ تک نہیں اُبھراکہ اسلام کی رو سے غیر مسلموں کو توہین رسالت پر قتل کرنا درست نہیں ، تاآنکہ مملکت ِاسلامیہ پاکستان کےمغرب زدہ دانشوروں کی عقل ومنطق کو یہ بات کھٹکی اور اُنہوں نے اس کے لئے حیلے بہانے تراشنے شروع کردیے۔شریعت کے اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ 2 اسلام ، جو اللہ کا آخری اور مکمل دین ہے، اپنے بھرپور استحقاق کے باوجود اپنے ماننے والوں کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ غیر مسلموں کے معبودوں اوران کی عبادت گاہوں کو مسمار کریں ۔ اسلام کا یہ اُصول اس آیت ِکریمہ میں موجود ہے: وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ ’’اور تم اُن معبودوں کو جنہیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا عبادت کے لئے پکارتے ہیں ، گالی مت دو۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ جواباً غصے میں اللہ تعالیٰ کو بغیر علم کے گالیاں بکیں گے۔‘‘ جب اسلام اس ضابطہ اخلاق کو اپنے ماننے والوں پر عائد کرتا ہے تو پھر اسلام اس کا حق رکھتا ہے کہ دیگر مذاہبِ باطلہ کے لوگ بھی اسلام کی مقدس شخصیات اور مقامات وشعائر کا پورا احترام کریں ۔ 3 اسلام نے صرف اس کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ مذاہب ِسماویہ کی مقدس شخصیات کی توہین پر سنگین سزا بھی عائد کی۔توہین رسالت کے بارے میں یہ شرعی حکم صرف رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہیں بلکہ تما م سابقہ انبیائے کرام کی توہین کے لئے بھی یہی سزا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کا فرمان ہے: من سبّ اللّٰہ أو سبّ أحدًا من الأنبياء فاقتلوه [2]
[1] سنن ابو داود: 4262، السنن الکبریٰ للبیہقی: 7/60 [2] كنز العمال: 335465 ، الصارم المسلول:201