کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 57
قانون ہوتے ہوئے بھی قابل توبہ قرار دینے کی سعی کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر نے آسیہ مسیح سے 20 نومبر کو شیخوپورہ میں اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ہمراہ ملاقات میں یہی قرار دیا تھا کہ ’’آسیہ مسیح بے گنا ہ ہے۔ اگر اس نے کوئی کوتاہی کی بھی ہے تو وہ اب توبہ کرچکی اور معافی کی طالب ہے۔‘‘
کیا توہین رسالت کی سزا غیر مسلم کو بھی دی جائے گی؟
میڈیا میں یہ سوال بھی تکرار سے اُٹھایا جاتا رہا ہے کہ اگر یہ اسلامی قانون ہے تو پھر اس کو صرف مسلمانوں پر ہی نافذ ہونا چاہئے۔ غیرمسلم اور مسیحیوں پر اس قانون کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کے بھی دو مختلف تناظر میں دو علیحدہ جوابات ہیں :
(1) اسلامی پہلو سے:
1 یہ بات درست ہے کہ یہ اسلامی قانون ہے، لیکن اسلام کا یہ قانون، مسلمانوں سمیت تمام غیرمسلموں کو شامل ہے۔ اسلام کی رو سے جو شخص بھی توہین رسالت کا مرتکب ہو، اس کویہ سزا دی جائے گی۔ جیسا کہ
1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کعب بن اشرف یہودی کو اپنی نگرانی میں قتل کرایا۔
2. ابو رافع سلام بن الحقیق یہودی کو اپنے حکم سےقتل کرایا۔ آپ نے عبد اللہ بن عتیک کو اس یہودی کو قتل کرنے کی مہم پر مامور کیا۔[1]
3. حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرک شاتم رسول کو قتل کرنے بھیجا۔
4. عمیر بن اُمیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی گستاخِ رسول مشرک بہن کو قتل کیا اور آپ نے اس مشرکہ کا خون رائیگاں قرار دیا۔
5. بنوخطمہ کی گستاخ عورت عصما بنت ِمروان کو عمیر رضی اللہ عنہ بن عدی خطمی نے قتل کردیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل پر عمیر بن عدی کی تحسین کی۔
6. دورِ نبوی میں ایک یہودیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دشنام کیا کرتی اورگستاخی کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے گلا گھونٹ کر اس کو قتل کردیا تو آپ نے اُس کا خون رائیگاں
[1] صحیح بخاری: 4039