کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 56
اسلام سے خروج کیا جاتا ہے۔ اور اس میں آپ کے خلاف پروپیگنڈا اور زبان درازی بھی شامل ہے۔ چنانچہ خروج کی حد تک توہین رسالت کا جرم ارتداد ہے جبکہ مزید زیادتیوں کی بنا پر ایک قابل سزا جرم ہے جو صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ محدث کے گذشتہ شمارے میں توہین رسالت کےقابل سزا جرم ہونے کے بارے میں مسالک اربعہ کے ممتاز فقہا کے اقتباسات شائع کئے گئے تھے۔
٭ پاکستان یا عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کے موجودہ حالات میں توہین رسالت کے جرم کا اگر دینی مصالح کے لحاظ سے بھی جائزہ لیا جائے تو اس کو کسی طورقابل توبہ نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ مسلمانوں کے اس دورِ زوال میں ہر کہ ومہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہونے کے بعد ، بظاہر توبہ کا داعی بن بیٹھے گا، حالانکہ توبہ کی اس کی کوئی خالص نیت نہ ہوگی۔ اس سے رحمۃ للعالمین کا تقدس اور ناموس دشمنوں کے ہاتھ میں کھیل بن جائے گی۔یہ دور اس لحاظ سے بڑا دردناک ہے کہ اس میں غیر مسلموں نے اہانت ِرسول کو ایک کھیل اور مشغلہ بنا رکھا ہے، میڈیا کے اس دور میں تاریخ کی سب سے بڑی اور وسیع اہانت کا ارتکاب کیا جارہا ہے، جو مسلسل بھی ہے اور تنوع پذیر بھی۔ حتی کہ مسلم ممالک کے حکمران بلادِ اسلامیہ میں ایسا ظلم کرنے والوں کا ناطقہ بند کرنے کی بجائے ان کو فوری طورپر کفار کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچانے کی جلدی کرتے ہیں ۔ اور پاکستان میں تو صورتحال یہاں تک افسوس ناک ہے کہ ایسے شاتم رسول افراد اور ان کے گھرانے عیسائی کمیونٹی او رمغرب نواز این جی اوز کی طرف سے سپانسر کئے جاتے اور خصوصی اعزاز وپروٹو کول کے مزے اُڑاتے پھرتے ہیں ۔ یہ افسوس ناک صورتحال کسی باخبر شخص سے مخفی نہیں ہیں ۔ ان حالات میں شریعت ِاسلامیہ کے اس حکم کی معنویت بالکل واضح بلکہ انتہائی ضروری نظر آتی ہے۔
(2) توہین رسالت کی توبہ کا دوسرا پہلو، اسلام سے قطع نظر، خالص جرم وسزا کےقانونی پہلو سے متعلق ہے۔ پاکستان میں توہین رسالت ایک طے شدہ جرم ہے جس کے جرم قرار پانے کے تمام قانونی ضابطے بالکل مکمل ہیں ۔کیا پاکستان کے مجموعہ تعزیرات میں کوئی اور بھی ایسے قوانین ہیں جن کی توبہ کی بنا پر ان کی سزاساقط ہوجاتی ہے۔ کیا پاکستان میں چوری یا فراڈ یا دہشت گردی کرنے کے بعد کوئی مجرم اگر توبہ کرلے تو اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے؟ اگر یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے تو پھر کیا توہین رسالت ہی ایسا ہلکا جرم ہے جسے ایک مستند