کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 55
کی سزا کی معافی کا کوئی اِمکان نہیں رہتا۔
٭ یاد رہے کہ مختلف احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ توہین رسالت کے مجرمین سے توبہ کا مطالبہ کبھی نہیں کیا گیا اور ان کا جرم اتنا سنگین ہے کہ فتح مکہ کےموقع پر عام معافی کے دن اور امن و امان کے مرکز مسجد ِحرام میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سزا میں کوئی رعایت نہیں کی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو امن وامان دے دی تو اس دن بھی گستاخانِ رسول کو امان نہ دی:
لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم النَّاسَ إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ اقْتُلُوهُمْ وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَأَمَّا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِكَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ [1]
’’ فتح مکہ کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو امان دے دی، سوائے چار مردوں اور دو عورتوں کے ۔ فرمایا: ان کو قتل کردو، اگرچہ تم اُنہیں کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہوئے بھی پالو۔ ان میں ایک عکرمہ بن ابو جہل تھا، دوسرا عبد اللہ بن خطل، تیسرا مقیس بن صبابہ اور چوتھا عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح۔ عبد اللہ بن خطل کو تو اس حال میں قتل کیا گیا جبکہ وہ کعبہ کے غلاف سے لپٹا ہوا تھا۔‘‘ حدیث میں آگے باقی لوگوں کی سزا کا تذکرہ ہے۔
٭ توہین رسالت کو فقہاے کرام نے ارتداد قراردیتے ہوئے اس کی سزا قتل بیان کی ہے۔ اس سے یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہئے کہ ارتداد کےتمام احکام مثلاً توبہ اور معافی وغیرہ بھی اس پر لاگو ہیں ۔ بلکہ توہین رسالت کی ارتداد سے جزوی مشابہت پائی جاتی ہے اور فقہا نے سزائے قتل کی توجیہ کے طور پر اسے ارتداد قرار دیا ہے۔ وگرنہ اِرتداد ایک ایسا گناہ اور جرم ہے جس کی بغیر سزا کے بھی توبہ ہوسکتی ہے ۔ جبکہ توہین رسالت ارتداد سے زیادہ بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے جس کی چوری اور زنا وغیرہ کی طرف سزا معاف نہیں کی جاسکتی۔
توہین رسالت کے ارتداد سے بڑا جرم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ارتداد میں تو صرف اسلام سے خروج پایا جاتا ہے، جبکہ توہین رسالت میں نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جارحیت کرتے ہوئے
[1] سنن نسائی: 3999