کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 54
أَمَّا عَبْدُ اللّٰہ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ يَا رَسُولَ اللّٰہ بَايِعْ عَبْدَ اللّٰہ قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ فَقَالُوا وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللّٰہ مَا فِي نَفْسِكَ هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ قَالَ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ [1] ’’جہاں تک عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کی بات ہے تو اس نے سیدنا عثمان بن عفان کے ہاں پناہ لےلی او رجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیعت کے لئے دعوت دی تو عثمان اس کو بھی ساتھ لے آئے۔ حتی ٰ کہ اس کو نبی کریم کے پاس لا کھڑا کیا اور کہنے لگے: یارسول اللہ! عبد اللہ کی بیعت قبو ل کر لیجئے۔ راوئ حدیث کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک بلند کیا اور تین بار اس کی جانب دیکھا، ہر بار آپ بیعت سے انکار کرتے رہے۔ آخر کار تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم میں کوئی عقل مند آدمی نہیں تھا ؟ جو عبد اللہ کو قتل کردیتا جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا کہ میں نے اس کی بیعت کرنے سے اپنے ہاتھ کو روک رکھا ہے۔ صحابہ نے جواب دیا کہ یارسول اللہ ! ہمیں پتہ نہ چل سکا کہ آپ کے جی میں کیا ہے؟آپ ہمیں اپنی آنکھ سے ہی اشارہ فرما دیتے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کسی نبی کے یہ لائق نہیں کہ وہ کن انکھیوں سے اشارے کرے۔‘‘ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے جرم سے معافی کی سزا اسی وقت مل سکتی ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے حق میں زیادتی کو معاف فرما دیں جیسا کہ مذکورہ بالا واقعات ميں بادلِ نخواستہ آپ نے عبد اللہ بن ا بی سرح کی توبہ کو منظور کرلیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد چونکہ اَب آپ کی ذات کی طرف سے یہ معافی دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا ، اس لئے گستاخِ رسول کی سزا بھی معاف نہیں کی جاسکتی۔ بہر حال یہ بعض اہل علم کا قول ہے، تاہم توہین رسالت میں اگر مسلمانوں کی حق تلفی کو بھی شامل کیا جائے جو بہت اہم پہلو ہے، تو اس
[1] سنن نسائی رقم:3999، ج 12/ ص 427