کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 53
حالانکہ وہ تو زانیہ تھی۔ سید المرسلین نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے جو اگر ستر اہل مدینہ پر بھی تقسیم کردی جائے تو ان کو بھی کافی ہوجائے۔ اس سے بہتر توبہ کیا ہوگی جس میں اس نے اپنے آپ کو خود ربّ کے حضور پیش کردیا۔‘‘
دورِ نبوی میں ایسے واقعات صرف زنا کے بارے میں نہیں بلکہ چوری وغیرہ کے بارے میں بھی ملتے ہیں ۔ ان اعترافات کے پیچھے دراصل شریعت ِاسلامیہ کا یہ تصور موجود ہے:
قَالَ مَنْ أَصَابَ حَدًّا فَعُجِّلَ عُقُوبَتُهُ فِي الدُّنْيَا فَاللّٰہ أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عَلَى عَبْدِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الْآخِرَةِ وَمَنْ أَصَابَ حَدًّا فَسَتَرَهُ اللّٰہ عَلَيْهِ وَعَفَا عَنْهُ فَاللّٰہ أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ إِلَى شَيْءٍ قَدْ عَفَا عَنْهُ [1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن مروی ہے کہ جس شخص نے حد والے جرم کا ارتکاب کیا، اور اسے دنیا میں ہی اس کی سزادے دی گئی تو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ عادل ہیں کہ اس شخص پر آخرت میں سزا کو دوبارہ عائد کریں ۔اور جس شخص نے حد والے جرم کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کو چھپائے رکھا او راسے معاف کردیا تو اللہ اس سے کہیں زیادہ کریم ہیں کہ معاف کردہ جرم کی پھر سزا دیں ۔‘‘
ان شرعی تصورات کو ملایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بیان کردہ جرائم کی سزا محض توبہ،حتیٰ کہ خود اعترافِ جرم کرلینے اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کردینے سے بھی رفع نہیں ہوجاتی۔ تاہم اگر کوئی انسان دنیا میں یہ سزا پالے تو قیامت کے روز یہ سزا اس کے لئے جرم سے کفارہ بن جاتی ہے۔ اور یہ بھی اس حالت میں جب اس سزا کے ملنے پر وہ نادم ہو۔ اگر وہ نادم نہیں تو دنیا میں ملنے والی سزاکے باوجود آخرت میں بھی اس پر مزید سزا دی جائے گی۔ ان حالات میں کسی مجرم کا اپنے آپ کو خود سزا کیلئے پیش کرنا ایک قابل قدر ، قابل تعریف اورعزیمت والا فعل ہے جس کی تعریف خود زبانِ رسالت سے بیان ہوئی ہے۔
توہین رسالت دیگر جرائم کی طرح ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا مل کررہے گی۔ مذکورہ بالا استدلال کے علاوہ شاتم رسو ل کی توبہ قبول نہ ہونے کی براہِ راست دلیل حدیث ِنبوی میں درج وہ مشہور واقعہ بھی ہے جس میں شاتم رسول عبد اللہ بن ابی سرح کی توبہ کا مسئلہ پیش آیا۔ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا یہ ہے:
[1] جامع ترمذی: 2550