کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 52
صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارِ رسالت میں پیش کردیا تھا۔ دورِ رسالت میں ایسے واقعات جن میں زنا اور چوری کے مرتکب صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے آپ کو خود پیش کیا، ان کی تعداد درجن سے زائد ہے۔ اور اُنہی میں سے ایک صحابیہ غامدیہ کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ آپ نے اس صحابیہ کو بار بار واپس بھیجا کہ ٭ کیا تمہیں دیوانگی تو لاحق نہیں ہے؟ ٭ وضع حمل کے بعدآنا: فاذهبي حتى تلدي فلماولدت أتته بالصبي في خرقة ٭ پھر وہ صحابیہ وضع حمل کے بعد آئی تو کہا : بچے کی رضاعت کے بعد آنا ٭ تب وہ صحابیہ آئیں اور بچے کےہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ (صحیح مسلم:1695) اگر محض توبہ سے شریعت ِاسلامیہ کے بیان کردہ جرائم کی سزا ختم ہوجاتی تو اس صحابیہ کی ختم ہونا چاہئے تھی جن کے بارے میں نبی کریم نے تعریفی جملہ ارشاد فرمایا تھا۔ ایک اورروایت میں مختصر واقعہ اور تعریفی جملہ یوں بیان ہوا ہے: امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ نَبِيَّ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَهِيَ حُبْلَى مِنْ الزِّنَى فَقَالَتْ يَا نَبِيَّ اللّٰہِ أصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ فَدَعَا نَبِيُّ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَلِيَّهَا فَقَالَ أَحْسِنْ إِلَيْهَا فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِي بِهَا فَفَعَلَ فَأَمَرَ بِهَا نَبِيُّ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ عُمَرُ تُصَلِّي عَلَيْهَا يَا نَبِيَّ اللّٰہ وَقَدْ زَنَتْ فَقَالَ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا للہِ تَعَالَى [1] ’’جہینہ قبیلہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور وہ زنا کی بنا پر حاملہ تھی۔کہنے لگی: یارسول اللہ! مجھ پر حد لگا دیجئے، میں نے شرعی حد کو پامال کیا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سرپرست کو بلایا او رکہا کہ اس سے اچھا سلوک کرنا اور وضع حمل کے بعد میرے پاس لے آنا۔ اس نے ایسے ہی کیا، تب نبی کریم نے اس کے بارے میں حکم دیا، اس کے کپڑے باندھ دیے گئے پھر اس کو رجم کردیا گیا۔ نبی کریم نے اس عورت کی دعائے مغفرت کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: آپ اس کی دعاے مغفرت کیوں کرتے ہیں ،
[1] صحيح مسلم رقم: 3209، ج 9/ص 70