کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 50
ان نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں گستاخانِ رسول کی باقاعدہ سزا سے قبل اللہ تعالیٰ نے شاتمانِ رسالت کو خود کیفر کردار تک پہنچایا اور اس وقت تک مسلمانوں کو اس دشنام طرازی کا ردّعمل پیش کرنے کی اجازت نہ تھی۔ مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رحمت وشفقت کی بنا پر اپنا شخصی حق معاف توفرما سکتے تھے، لیکن شان رسالت میں زیادتی پر معافی کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ۔
شاتم رسول کی توبہ کا مسئلہ؟
اس سوال کے دو مختلف پس منظر ہیں او رہر دو کی وضاحت بھی علیحدہ ہے:
(1) اُصولی طورپر شاتم رسول کی توبہ کے بارے میں یہ واضح رہنا چاہئے کہ شتم رسول صرف ایک گناہ ہی نہیں بلکہ شریعت کی رو سے ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔ اس بنا پر دیگر جرائم کی طرح جب اس کا علم عوام تک ہوجائے، مسلم حکمران اور اسلامی عدالت تک پہنچ جائے تو دیگر جرائم کی طرح اس کی سزا کی معافی نہیں ہوسکتی۔جیسا کہ چوری ایک گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ جرم بھی ہے یعنی دنیا میں ا س فعل کے ارتکاب پر مسلم حکومت اس کی سزا دینے کی پابند ہے۔چوری کے بارے میں مشہور واقعہ کتب ِاحادیث میں آتاہے :
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ أَنَّ رَجُلًا سَرَقَ بُرْدَةً فَرَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللّٰہ قَدْ تَجَاوَزْتُ عَنْهُ قَالَ: فَلَوْلَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ يَا أَبَا وَهْبٍ فَقَطَعَهُ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم [1]
’’صفوان بن اُمیہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے چادر چوری کی تو اس کا کیس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا گیا، آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ شکایت کنندہ نے کہا : میں نے اس کو معاف کردیا تو آپ نے فرمایا: ابو وہب ! میرے پاس آنے سے پہلے پہلے تو نے اسے معاف کیوں نہ کردیا۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔‘‘
اسلام میں جرائم کے حوالے سے دو طرح کےحقوق میں خلل واقع ہوتا ہے: پہلا حق اللہ اور دوسرا حق العباد۔ یعنی ان جرائم کو اللہ نے بھی حرام قرار دیا ہے اور انسانوں کے مصالح بھی اس سے متاثرہوتے ہیں ۔ چوری اور زنا کی طرح شتم رسول کے مسئلے میں بھی حق
[1] سنن نسائی: 4796