کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 5
قوتوں سے اپنے مفادات کے حصول کے لئے گٹھ جوڑ کرتے رہیں گے اور عوام اپنے دائرہ اختیار میں اپنی مرضی کریں گے۔
اگر آج پاکستان کے حکمران پاکستان کا حقیقی منظرنامہ دیکھنا چاہتے ہیں تو توہین رسالت کے قانون اور اس سلسلہ میں حکومتوں کے کردار پر ملک بھر میں ریفرنڈم کرا کے دیکھ لے، ممتاز قادری کے اقدام قتل اور سلمان تاثیر کے واقعہ پر عوامی ریفرنڈم کرائے۔ ڈرون حملوں پر ریفرنڈم کرا کے دیکھے، امریکی مداخلت پر ریفرنڈم کرائے تو رائے عامہ کی کثرت سے اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
پاکستان میں زندگی کے ہر میدان میں جاری دس سالہ جارحیت کے بعد ایک انقلاب دستک دے رہا ہے جو کبھی طالبان کی صورت میں دین کے نام کا سہارا لیتا ہے تو کبھی وکلا تحریک کی صورت میں سیاسی بدعنوانیوں کا راستہ روکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے ہمیں پاکستانیوں کو جائز حقوق دینے ہوں گے، وگرنہ جبر کا سلسلہ جوابی ردعمل کی صورت میں جاری رہ کر پاکستانی معاشرے کو تباہ وبرباد کردے گا۔
یہاں قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ اس انتہاپسندی کی قیادت روایتی مذہبی طبقے نہیں کر رہا بلکہ اس غم وغصہ کا حالیہ مظہر مغربی نظام تعلیم کے فیض یافتہ ایک نوجوان ممتاز قادری میں نظر آیا ہے۔ اخبارات میں آیا ہے کہ ممتاز قادری عام پاکستانی نوجوانوں جیسے رجحانات اور کردار کا حامل ہے، اور دینی مدارس یا دینی تنظیمیں جنہیں مغرب زدہ لوگ فرسٹریشن کا شکار قرار دے کر نظر انداز کردیتے ہیں ، ان میں قادری کا شمار نہیں ہوتا۔
حکومت کے لئے فکر مندی کا پیغام یہ ہے کہ اگر یہ انتہاپسندی راسخ العقیدہ لوگوں سے بڑھ کر پورے معاشرے میں سرایت کرچکی ہے تو پھر حکومت اس کاعلاج چند لوگوں کو نشانہ بنا کر نہیں کرسکتی۔ اس کے لئے حکومت کو معاشرے سے ظلم وجبر اور تشدد و جارحیت کا خاتمہ کرنا ہوگا، اس کے لئے عملی اورٹھوس اقدامات بروے کار لانا ہوں گے۔ رواداری کی یک طرفہ تلقین ، بے کار وعظ کے سوا کچھ نہ ہوگی!!
الغرض پاکستان کا یہ الم ناک منظر نامہ حکمران طبقہ اور مغرب زدہ اقلیت کے انتہاپسند اقدامات کا ہی ردّعمل ہے۔ سلمان تاثیر نے قانون توہین رسالت کو ’سیاہ قانون‘ کہہ کر جس انتہاپسندی کو اختیار کیا تھا، اُسی کے ردعمل کا وہ شکار ہوگیا!!