کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 49
عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب پتہ چل جائے گا کہ کون مجنوں او ردیوانہ ہے؟[1] قرآنِ کریم میں صحابہ کو ایسے وقت صبر وتحمل کی ہدایت کی گئی: لَتُبْلَوُنَّ فِيْۤ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ١۫ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِيْرًا١. وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ’’البتہ ضرور تم اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمائے جاؤگے اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے اذیت کی بہت سی باتیں سنو گے۔ اگر تم صبر کرو او راللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔‘‘ سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتأول في العفو ما أمرہ اللّٰہ عزوجل به حتی أذن اللّٰہ فیھم فلما غزا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدرًا فقتل اللّٰہ بها من قتل من صنادید الکفار وَسَادَةِ قُرَيْشٍ [2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر ان کے بارے میں درگذر سے کام لیتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے آپ کو ان کے بارے اجازت دے دی۔ پھر جب آپ نے غزوۂ بدر لڑا اور اللہ تعالیٰ نے اس غزوے میں قریش کے جن کافر سرداروں کو قتل کرنا تھا، قتل کرا دیا۔‘‘ گستاخانِ رسول کو نظرانداز کرنے کا دور مدینہ منورہ کے ابتدائی سالوں تک رہا، اس دور کے بہت سے واقعات جن میں آپ کو رَاعِنَا وغیرہ کہنا بھی شامل ہیں ، ان کی توجیہ بھی یہی ہے جیسا کہ حبر الامہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے[3] ہیں : ’’فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١. کا عفو و درگزر والا حکم آیت فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ(التوبۃ:5) سے منسوخ ہوا۔ فنُسِخ ھذا عفوہ عن المشرکین ’’اس نے مشرکوں کے بارے میں آپ کی معافی کو منسوخ [4]کردیا ہے۔‘‘ (مختصراً)
[1] فَسَتُبْصِرُ وَ يُبْصِرُوْنَۙ۰۰۵ بِاَىيِّكُمُ الْمَفْتُوْنُ۰۰۶ [2] صحيح بخاری: رقم 5739 [3] تفسیر ابن كثیر:1/ 383 [4] مزید تفصیل کے لئے مولانا مبشر ربانی حفظہ اللہ کا مضمون [صفحات تا ] میں ملاحظہ فرمائیں۔