کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 48
تو جبریل بولے : میں نے آپ کا دفاع کیا ہے۔ ایسے ہی عاص بن وائل کے پاؤں کے ساتھ ہوا، اسود بن مطلب ایک درخت کے نیچے لیٹا تھا کہ ایک ٹہنی درخت سے گر کر اس کی آنکھ میں پیوست ہوگئی اور وہ اندھا ہوگیا۔ اسود بن یغوث کے سر میں شدید زخم نمودار ہوگیا جس سے وہ مارا گیا۔ اورحارث بن غیطل کے پیٹ میں صفرا اتنا شدید ہوگیا کہ غلاظت اس کے منہ سے خارج ہونے لگی اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہوئی۔ یہ پانچوں اپنی قوم کے سردار تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے پر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا۔ ‘‘[1] جب طائف کی وادی پر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھرمارے گئے اور آپ کے قدمِ مبارک سے خون جاری ہوگیا تو جبریل امینؑ نےآسمان سے نازل ہوکر کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ان پر میں طائف کے پہاڑوں کو اُلٹادوں ۔جواب میں آپ نے تاریخ ساز جملہ بول کر اپنی رحمت للعالمینی کو ثابت کردیا: جعلوا يرجمونه بالحجارة، وهو يقول:«اللّھم اهد قومي، فإنهم لا يعلمون» [2] ’’ [طائف کے بدبختوں نے] آپ پر پتھراؤ شروع کردیا اور آپ جواب میں فرماتے جاتے: الٰہی ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، یہ جانتے نہیں ہیں ۔‘‘ انسانی تاریخ میں شاتمانِ رسالت کا کیسا عبرت ناک انجام ہوا، اس کےلئےدیکھئے مضمون: ’شاتمین رسول کا عبرت ناک انجام: تاریخ کے آئینے میں ‘[3] 3 بعض آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مسلمان اس وقت خودایسے شاتمانِ رسالت کی سرکوبی کی قوت نہ رکھتے تھے، حتیٰ کہ بیت اللہ میں نماز سرعام پڑھنے سے بھی بعض اوقات گریز کرنا پڑتا تھا، سو اُس دور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اذیت پر صبر وتحمل کی تلقین کی او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دلاسہ دیا کہ آپ کی شان میں دریدہ دہنی کرنے والے دراصل اللہ کی تکذیب کرتے ہیں [4]جنہیں اللہ ہی خوب کافی ہے[5]
[1] دلائل النبوۃ از اصبہانی :1/63، طبرانی الاوسط، دلائل النبوۃ للبیہقی، درّمنثور: 5/101 (زیر آیت الحجر:95) [2] تفسیر ابن كثير:ج 6/ ص 571 [3] فرائیڈے سپیشل بحوالہ کتابچہ ’قانونِ توہین رسالت کیوں ضروری ہے؟‘ [4] قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ۰۰۳۳ اور وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَۙ۰۰۹۷ [5] اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَۙ۰۰۹۵