کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 47
ہونے والے گستاخانِ رسول کو قتل کرنے کے لئے آپ نے کھلی دعوت دی۔ محمد رضی اللہ عنہ بن مسلمہ کو آپ نے خود کعب بن اشرف کے قتل کی مہم پر بھیجتے ہوئے اُن کے لیے اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا فرمائی ، ایسے ہی حضرت حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ
’’روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرما!‘‘
جہاں تک سیرتِ نبوی کے اس پہلو کا تعلق ہے جس میں آپ نے اپنے دشمنوں کو معاف فرمایا، تو اس کی وضاحت یہ ہے :
1 اس سلسلے میں آپ کو شخصی اذیت دینے والے اور آپ کی رسالت پر زبان طعن دراز کرنے والوں میں فرق کرنا ہوگا۔ جن لوگوں نے آپ کی ذاتِ مبارکہ یعنی محمد بن عبد اللہ کو اذیت دی، تو آپ نے اپنی وسیع تر رحمت کی بنا پر ان کو معاف فرما دیا، لیکن جو لوگ آپ کے منصب ِرسالت پر حرف گیری کرتے تھے، اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے تھے، اُنہیں آپ نے معاف نہیں کیا کیونکہ منصب ِرسالت میں یہ گستاخی دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پر زبان درازی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنا او راپنے رسول مکرم کا تذکرہ یکجا کیا ہے۔آپ کی ذات کے سلسلے میں زیادتی کی معافی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی دے سکتے ہیں ، آپ کا کوئی اُمتی ایسا نہیں کرسکتا۔
2 تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو منصب ِنبوت میں نقب لگانے والے تھے، ان کا عبرت ناک انجام ہوا۔ ان لوگوں میں ابو لہب کے ذکر بد کے لئے ایک پوری سورت مخصوص کرکے اُسے نمونۂ عبرت بنادیا گیا، ابو جہل بدر میں مارا گیا، عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ، اَسود بن عبد یغوث، اَسود بن مطلب، حارث بن عبطل سہمی اور عاص بن وائل یہ تمام نام اس انجام کا مظہر ہیں جو اللہ ربّ العزت ایسے لوگوں کا کیا کرتے ہیں ۔تفسیر در ِّ منثور میں مذکور ہے :
’’[مذکورہ بالا] افراد نے نبی کریم کا استہزا کیا جس سے آپ رنجیدہ خاطر ہوئے۔ فوراً حضرت جبریلؑ تشریف لائے، اور ولید بن مغیرہ کی آنکھ کی طرف اشارہ کیا، اس کی آنکھ پھوٹ گئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تو کچھ نہیں کیا اورنہ کچھ کہا تو جبریل بولے: میں نے آپ کی طرف سے انتقام لیا ہے۔ پھر حارث کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ وہ اپنا پیٹ پکڑے درد سےلوٹ پوٹ ہورہا ہے۔ آپ نے کہا : میں نے تو کچھ نہیں کیا،