کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 46
فقہ واجتہاد ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیشرعی سزا:بعض اہم سوالات
توہین رسالت کےحوالہ سے ملک بھر میں جاری بحث مباحثہ میں بعض ایسے اعتراضات بھی اُٹھائے جارہے ہیں جن سے یہ تاثر دیا جاسکے کہ توہین رسالت کی سزا یا تو شرعی طورپر ایک مسلمہ امر نہیں ، یا اس کا اطلاق موجودہ حالات پر نہیں ہوتا۔ اس نوعیت کے اعتراضات نے چونکہ میڈیا کے ذریعے ہر عام وخاص کو متاثر کیا ہے، اس لئے ان کے بارے میں شریعت ِاسلامیہ کے موقف کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو معاف کرنے والے اور رحمت للعالمین ہیں !
کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کومعاف کردیا کرتے تھے۔ آپ پر بہت طعنہ زنی کی جاتی رہی، آپ کو ایذا دی گئی اور طائف کی وادی میں آپ پر پتھراؤ تک کیا گیا،حتیٰ کہ خونِ مبارک آپ کے جوتوں میں جم گیا، آپ نے تب بھی کسی کو سزا نہ دی تو پھر ایسے رحمۃ للعالمین اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم سے توہین رسالت کی اتنی سنگین سزا کا صدور بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے۔
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا یہ پہلو بڑا ہی واضح ہے جس کا اعتراف مسلمانوں کےعلاوہ غیر مسلموں نے بھی کیا ہے، تاہم قرآن وسنت کی نصوص اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات سے یہ امر ایک مسلمہ اُصول کے طورپر ثابت شدہ ہے کہ نہ صرف شانِ رسالت میں گستاخی کی سزا قتل ہی ہےبلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مدینہ منورہ میں اپنے بہت سے گستاخان کو قتل کرنے کا براہِ راست حکم صادر فرمایا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں اس دشنام طرازی کے جواب میں اُن کو قتل کرنے کی دعوتِ عام دی ۔ ایسے جانثار صحابہ رضی اللہ عنہم کی آپ نے حوصلہ افزائی کی اور اُن کی مدد کے لئے دعا بھی فرمائی جیسا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ، عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ او رمحمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے واقعات احادیث میں موجود ہیں کہ اِن کے ہاتھوں قتل