کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 45
وہ اپنے گرجا گھروں میں جو کہنا ہے کہیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالیں او راگر کوئی دشمن ان کا قصد کرے تو ہم ان کے پیچھے ان سے لڑائی لڑیں اور اُنہیں ان کے احکامات پر چھوڑ دیں ،اِلا یہ کہ وہ ہمارے احکامات پر راضی ہوکر آئیں تو ہم ان کے درمیان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں او راگر وہ ہم سے غائب ہوں تو ہم ان کے پیچھے نہ پڑیں ۔‘‘
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صدقتَ ’’تم نے سچ کہا‘‘[1]
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اس کی متابعت کررکھی ہے۔ [2]
مذکورہ بالا احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہوا کہ شاتم رسول اور دشنام طرازی کرنے والے گستاخ کا علاج قتل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسے لوگوں سے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر اُنہیں قتل کیا۔ اور عفو و درگزر کا حکم مدینے کی ابتدائی زندگی میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی اذیتوں اور گالی گلوچ پرصبروتحمل سے کام لیتے رہے۔ پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ان کا علاج قتل و قتال تجویز کیا گیا۔لہٰذا شاتم الرسول کو بالخصوص قتل کی سزا سے معافی نہیں دی جاسکتی۔ اگر کوئی غیر مسلم پکڑے جانے کے بعد توبہ کرلے تو اس کی توبہ کا فائدہ عنداللہ تو ہوسکتا ہے ،لیکن دنیا میں حد کی معافی نہیں ہوگی۔
محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے کتب ِاحادیث میں کتاب الحدود قائم کرکے شاتم رسول کی سزا قتل بیان کی ہے اس میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں کیا اور یہ بات کتاب و سنت کے دلائل کی رو سے قوی اور مضبوط ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی لچک نہیں ہے!
[1] السنن الکبری للبیہقي:9 /375 بتحقیق اسلام منصور عبد الحمیدي وقال:حسن: 9/600 ط.قدیم،المعجم الأوسط:9/341، 342 (8743)، مجمع الزوائد (10569)ط قدیم:6/260،وقال:فیه عبداللہ صالح کاتب اللیث وقد وثق وفیه ضعف وبقیة رجاله ثقات
[2] ملاحظہ ہو: المطالب العالیة (2048) اتحاف الخیرة المھرة للبوصیري (4690) وغیرہ، الإصابة في تمییز الصحابة ص1035، أسد الغابة:4 /323،الاستیعاب في معرفة الأصحاب: /3203