کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 42
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کوخبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أقتلت أختك»کیا تم نے اپنی بہن کوقتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: «ولم؟» تم نے اسے کیوں قتل کیا تو اُنہوں نے کہا: إنها کانت تؤذینی فیك ’’یہ مجھے آپ کے بارے میں تکلیف دیتی تھی۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا تو اُنہوں نے کسی اور کو قاتل بنایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خبر دی اور اس کا خون رائیگاں قراردیا تو اُنہوں نے کہا: ہم نے سنا اور مان لیا۔‘‘ [1] 5 گستاخِ رسول ابو جہل کا انجام: سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے کہا: میں بدر والے دن صف میں کھڑا تھا۔ میں نے اپنے دائیں بائیں جانب نظر ڈالی تو دیکھا کہ میرے دونوں طرف دو نوجوان انصاری لڑکے کھڑے ہیں ۔ میں نے تمنا کی: کاش !میرے نزدیک کوئی طاقتور اور مضبوط آدمی ہوتے۔ ا ن میں سے ایک مجھے میرے پہلو میں ہاتھ مار کرکہنے لگا: یا عم! ھل تعرف أباجھل؟ ’’چچا !کیا تم ابوجہل کو پہچانتے ہو؟‘‘میں نے کہا: ہاں ، بھتیجے!تمہیں اس کی کیا غرض ہے؟ اُس نے کہا : أُخبرت أنه یسبّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والذي نفسي بیده لئن رأیته لا یفارق سوادی سواده حتی یموت الأعجل منا ’’مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا جسم اس کے جسم سے اتنی دیر تک جدا نہیں ہوگا جب تک ہم میں سے جس کو جلدی موت آنی ہے، آجائے۔‘‘ عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ مجھے اس نوجوان لڑکے کے جذبات پر بڑا تعجب ہوا۔پھر مجھے دوسرے لڑکے نے بھی اسی طرح پہلو میں ہاتھ مارا او راُس جیسی بات کہی۔ اتنے میں میری نظر ابوجہل پر پڑی۔ وہ لوگوں میں گھوم رہا تھا۔ میں نے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ ابوجہل ہے جس کے بارے میں تم دونوں سوال کررہے تھے۔ابن عوف کہتے ہیں : وہ دونوں جلدی سے اس کی طرف دوڑے اور دونوں نے اس پر تلوار کا وار کیا یہاں تک کہ اسے جہنم رسید کردیا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس آئے اور آکر آپ کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا
[1] المعجم الکبیر17‎ ‎‎/64(124)، مجمع الزوائد:6‎ ‎‎/398 (10570)، أسد الغابة:4‎ ‎‎/273، الإصابة: ‎‎ ‎/5904