کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 40
اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی اور اس وقت ابو رافع خیبر میں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت دی۔‘‘ اور امام حاکم کی الإکلیل اور امام ابن اسحٰق کی السیرة النبويةمیں ہے کہ ’’جس لشکر کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع یہودی کے قتل کے لئے روانہ کیا تھا، ان میں عبداللہ بن عتیک، عبداللہ بن انیس، ابوقتادہ، حارث بن ربعی اور مسعود بن سنان شامل تھے۔‘‘ [1] ٭ ابورافع کے قتل کا سبب بھی ایذائے رسول تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: وکان أبو رافع یؤذی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویعین علیه [2] ’’ابورافع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا اور آپ کے خلاف تعاون کرتا تھا۔‘‘[3] ٭ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ ’’عروہ فرماتے ہیں ابورافع غطفان وغیرہ مشرکینِ عرب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت زیادہ مالی معاونت کرتا تھا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اذیت ِرسول اور رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اُبھارنے اور مالی سپورٹ کرنے کی وجہ سے ابورافع یہودی کو قتل کیا گیا۔ پھر اس سے اوس و خزرج کے قبائل کا گستاخانِ رسول کے تعاقب میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا عزم بھی معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بولنے والی زبان، دشمنانِ رسالت کے معاونین خواہ مالی سپورٹر ہوں یا زبانی کلامی، واجب القتل ہوجاتے ہیں ۔ آج مسلمانانِ عالم کو گستاخان رسول کے تعاقب میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حریص اور میدانِ کارزار میں کود جانے کا کردار اَدا کرنے کی شدید حاجت و ضرورت ہے۔ 3 شاتمہ کا قتل: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک نابینے کی اُمّ ولد تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں بکتی اور آپ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتی تھی۔ وہ نابینا صحابی رضی اللہ عنہ اسے منع کرتا تھا، وہ باز نہ آتی تھی۔ اسے ڈانٹتا تھا وہ سمجھتی نہ تھی۔ ایک رات جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدگوئی کرنے لگی تو اُس نے برچھا پکڑا تو اسے اس کے پیٹ پر رکھ دیا
[1] فتح الباری: ‎‎ /1039‎ [2] الرقم:4039 [3] فتح الباري: ‎ ‎‎/1049