کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 4
کے طور پرموجود رہا ہے۔ گذشتہ دس برس کے واقعات نے پاکستان کے عوام سے لے کر خواص تک میں ایک شدید ردعمل کی کیفیت پیدا کی ہے۔ ظلم وستم یا مسلمہ اقدار کو پامال کرنے کے حوالے سے یہی ردّعمل کبھی طالبان کی صورت میں سامنے آتا ہے تو کبھی لال مسجد کی صورت میں ۔ لاہور میں 27 جنوری کو ایک امریکی ریمونڈڈیوس کے ہاتھوں تین پاکستانی شہریوں کی ہلاکت نے قومی میڈیا میں جو نمایاں جگہ پائی ہے اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بطورِ خاص مقتولین کے ورثا سے ملاقات کرکے ان کو تسلی دینا پڑی ہے ‎، اس سے ایسے واقعات کی حساسیت کا پتہ چلتا ہے کہ ان سالوں میں امریکہ کی بڑھتی مداخلت اور حکومت سے جاری مفاہمت کو عوام کس تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ اس انتہاپسندی کو بڑھانے میں مشرف حکومت کا بڑا کردار ہے جس کے ایک نمائندہ پرویز مشرف کے مقرر کردہ گورنر سلمان تاثیر بھی تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد سے یہ انتہا پسندی ہماری سیاست کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے جس کی ایک نمایاں مثال گورنر پنجاب اور ن لیگ کی باہمی انتہاپسندانہ سیاست اور بیان بازی بھی رہی ہے۔ سیاست کے ایوانوں میں یہی انتہا پسندی کبھی ن لیگ اور ایم کیو ایم کے مابین سنگین الزامات کی صورت اختیار کرتی نظر آتی ہے۔ امریکی تسلط او رجارحیت کے اس دور میں ہمارے معاشرے کا عام آدمی غربت کی چکی میں پس کررہ گیا ہے۔یہ مظلومیت اور بداعتمادی پاکستان ہی نہیں ، پورے عالم اسلام کی پہچان بنتی جارہی ہے کہ یہاں کے حکمران عوام کی خواہشات کے برعکس اُن پر مسلط ہیں ۔ اور عالمی قوتیں اپنے ملکوں میں عوامی خواہشات کی پاسداری کے دعووں کے باوجود عالم اسلام کے ایسے مطلق العنان حکمرانوں کو نہ صرف اپنی ہر طرح کی تائید سے نواز رہی ہیں بلکہ اُن سے ایسے معاہدے کررہی ہیں جو مسلم عوام اور ان کے نظریات واقدار پر مزید ظلم وستم ڈھانے کے مترادف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات میں انتہاپسندی کو پروان چڑھاتے چڑھاتے حکمران جماعت کا کوئی فرد اپنی پیدا کردہ آگ میں جل جائے تو معاشرے کے متاثر طبقوں میں اس کے ساتھ وہ ہمدردی بھی نظر نہیں آتی جو ہرمقتول کا ایک انسانی حق ہوا کرتی ہے۔اگر پاکستان کا لادین اور مقتدر طبقہ اس انتہاپسندی کا شاکی ہے تو پاکستان کے عوام پر جبروستم کی سیاست کا خاتمہ کرکے، ان کی مرضی اور پاکستان کے مقصد کے عین مطابق سنجیدہ اورٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، وگرنہ حکمران عالمی