کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 38
17. جب کعب بن اشرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں کو اذیت پہنچانے سے باز نہ آیا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اس کے قتل کے لئے لشکر روانہ کریں ۔ معلوم ہوا کہ گستاخانِ رسول کے ساتھ ابتدائے زمانہ میں عفوودرگزر او ران کی تکالیف او رایذا رسانی پر صبر و تحمل کا حکم تھا۔ لیکن بعد میں قتل کی اجازت وارد ہوئی، تبھی اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن اشرف کے قتل کے لئے لشکر روانہ کیا۔ ساری تفصیل سے پتہ چلا کہ اللہ کے قرآن میں گستاخِ رسول کی سزا کا قانون موجود ہے او رمعافی دینے والے حضرات کے موقف کابھی ردّ ہوگیا کہ یہ ابتدائی دور میں معاملہ تھا، بعد میں قتل کا حکم آچکا۔ لہٰذا گستاخ رسول خواہ یہودی ہو یا عیسائی ، ہندو ہو یا مسلم، جب گستاخی کا ارتکاب کرے گا تو واجب القتل ہے،حد قتل کی معافی نہیں ہوگی۔ بالخصوص توہین رسالت پر، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی عام لوگوں کی طرح نہیں ہے۔ اس کے ساتھ بہت سارے حقوق مل جاتے ہیں ، جیسے: 1 اللہ کا حق :جب کوئی شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کامرتکب ہوتا ہے تو اس نے اللہ کے سب سے بڑے ولی کی گستاخی کرکے اللہ سے اعلانِ جنگ کیا ہے۔ 2 اس نے اللہ کی کتاب اور اس کے دین میں طعن کیا ہے اس لئے کہ اللہ کے دین اور کتاب کی صحت رسالت و نبوت کی صحت پر موقوف ہے۔ توہین رسالت کرکے وہ دین اسلام اور کتاب اللہ کی توہین کا بھی مرتکب ہوا ہے۔ 3 یہ اللہ کی اُلوہیت میں بھی طعن ہے۔اس لئے کہ رسالت و نبوت پر طعن و تشنیع اللہ کی اُلوہیت میں تشنیع ہے جس نے اپنے نبی او رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا ۔ رسول کی تکذیب اللہ کی تکذیب ہے ،اللہ کے نبی کے حکم و معنی کا انکار اللہ کے حکم کا انکار ہے۔ 4 یہ تمام اہل ایمان کے حق پر ڈاکہ اور سب و شتم ہے۔اس لئے کہ تمام اہل ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے تمام انبیاء و رُسل علیہم السلام پر بلا امتیاز ایمان رکھتے ہیں ۔ اس لئے رسالت و نبوت کی توہین کرکے تمام اہل ایمان کو تکلیف دی جاتی ہے۔نبوت و رسالت کی گستاخی اہل ایمان کے ہاں ان کے والدین ، عزیز و اقارب، آباء و ابنا، خاندان و برادری کی گستاخی سے کہیں بڑھ کر ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وحرمت اہل