کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 37
مذکورہ بالا تفصیل سے درج ذیل نکات واضح ہوتے ہیں :
1. اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینا حرام ہے۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینا اللہ تعالیٰ کو اذیت دینے کے مترادف ہے۔
3. اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے والے ملعون ہیں ۔
4. اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے والوں کے لئے دنیا او رآخرت دونوں جہانوں میں سزا اور عقاب ہے۔
5. ان گستاخوں کی سزا عام مسلمانوں کو اذیت دینے سے کہیں بڑھ کر او رعلیحدہ ہے۔
6. اہل ایمان پر بہتان تراشی صریح گناہ اور اذیت دینا حرام ہے۔
7. ان ملعونوں کی یہ سزا ہے کہ جہاں پائے جائیں بُری طرح قتل کردیئے جائیں ۔
8. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن اشرف یہودی کے قتل کی علت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینا بیان کی ہے۔
9. کعب بن اشرف یہودی نقض عہد و پیمان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا مددگار اور اپنے شعروں میں آپ کی گستاخی کرنے والا تھا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاکھلا دشمن تھا۔
10. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے قتل کا ذمہ لیا اور حُب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مظاہرہ گستاخ رسول کو قتل کرکے کیا۔
11. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گستاخوں کےقتل کاحکم نامہ بھی جاری کیا اوراس کیلئے لشکرخود روانہ کیا۔
12. اس لشکر کو اللہ کے نام پر روانہ فرمایا او راللہ تعالیٰ سے ان کی مدد کے لئے دعا بھی کی۔
13. جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ملے جلے لوگ تھے۔مسلمان، یہودی اورمشرکین مدینہ میں قیام پذیر تھے۔
14. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تشریف آوری پر بلا امتیاز سب کی خیر خواہی اور اصلاح کا ارادہ فرمایا۔
15. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مبارک پر مشرکین اور یہود نے آپ کو اذیت دی بلکہ اذیت کی حد کردی۔
16. ابتدا میں اللہ تعالیٰ نےان کی ایذا رسانی اور گستاخی پر صبروتحمل اور عفو و درگزر کا حکم فرمایا اور اس صبروتحمل اور عفو و درگزر کی غایت حکم ثانی تک رہی جو کہ حتی یأتي اللّٰہ بأمره کی نص قطعی سے واضح ہے۔