کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 36
چہرے پر پہچان گیا۔ پھر آپ آگے گزر گئے۔ پھر جب تیسرے چکر پر آپ ان کے پاس سے گزرنے لگے تو اُنہوں نے پہلے جیسی پھر حرکت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا((تسمعون یا معشر قریش! أما والذي نفس محمد بیده لقد جئتکم بالذبح)) ’’اے قریش کے گروہ! تم سنتے ہو، اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے یقیناً میں تمہارے پر ذبح کا حکم لے کر آیا ہوں ‘‘ اور ایک روایت میں ہے : ((ما أرسلت إلیکم إلا بالذبح وأشار بیده إلی حلقه)) ’’نہیں میں تمہاری طرف بھیجا گیا مگر ذبح کے حکم کےساتھ اور آپ نے اپنے حلق کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ [1]
اس صحیح حدیث سے بھی واضح ہوگیا کہ گستاخانِ رسول اور شاتمانِ نبی کی سزا یہی ہے کہ انہیں ذبح کردیا جائے اور قرآن حکیم کی رو سے وہ بُری طرح قتل کردیئے جائیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی زندگی میں کفار و مشرکین کی طرف سے بہت ستایا گیا۔مصائب و آلام سے دوچار کیا گیا اور ایذارسانی او رگستاخی کی کافروں نے حد کردی اور کعبۃ اللہ میں کبھی آپ کے اوپر حالت ِنماز میں اونٹنی کی بچہ دانی لاکر ڈال دی جاتی[2] کبھی آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر گھونٹا جاتا[3] الغرض ہر طرح سے گستاخی کا ایک تسلسل تھا۔ لیکن ابتدا میں آپ کو صبر و تحمل اور عفو و درگزر کا حکم تھا۔ پھر اس کے بعد اس حکم کو منسوخ کرکے ایسے گستاخوں کے لئے قتل و قتال کا حکم آگیا ۔اس کی مزید تفصیل کے لئے امام بیہقی کے ’دلائل النبوۃ‘اور السنن الکبریٰ کی کتاب السیر باب ماجاء فی نسخ العفو عن المشرکین اور امام شافعی رحمہ اللہ کا ’الرسالہ‘وغیرہ ملاحظہ کریں ۔
[1] مسند الإمام أحمد:11 /610(7036)، صحیح ابن حبان(1685)، مسند أبي یعلی:13 /325 (7339) بتحقیق حسین سلیم أسد، المصنف ابن ابي شیبة: كتاب المغازي:14 /297 (18410)، دلائل النبوة لأبي نُعیم الأصبہاني:1 /209 (159)، دلائل النبوة للبیہقي:2 /275، 276، تغلیق التعلیق لابن حجر العسقلاني :4 /86، مجمع الزوائد:6 /10 بتحقیق عبد اللہ محمد الدرویش، خلق أفعال العباد للامام البخاري (234) 86، 87، فتح الباري :8 /575، امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں کتاب مناقب الانصار باب ما لقي النبي ﷺ وأصحابه من المشرکین بمكة نمبر (3856)حدیث کے تحت اس روایت کی طرف توجہ دلائی ہے۔
[2] صحیح البخاری:240
[3] صحیح البخاری :3856