کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 35
اسی بات کی تفصیل امام مفسرین ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’جامع البیان عن تاویل آی القرآن‘‘المعروف بہ تفسیر طبری:2/423، 424 میں بیان کی ہے۔ او ریہ بھی یاد رہے کہ سورہ توبہ قرآن حکیم کی وہ سورت ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئی جیسا کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’وآخر سورة نُزلت براءة‘‘[1]
لہٰذا اب کفار و مشرکین ، یہود و نصاری اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا ارتکاب کریں او ردین اسلام میں طعن و تشنیع سے کام لیں تواُنہیں معافی نہیں دی جائے گی ان کا علاج صرف اسلام کی تلوار ہے۔ ایسے افراد واجب القتل ہیں ، انہیں اللہ کی زمین پر زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔
٭ بعض احادیث ِصحیحہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے گستاخوں کے قتل و ذبح کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں ہی معلوم ہوچکا تھا ،لیکن اس کی باقاعدہ تنفیذ مدینہ طیبہ میں آکر ہوئی، جیساکہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
’’اُن سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے کسی ایسے سخت واقعہ کے متعلق خبر دو جومشرکین نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روا رکھا ہو او ران کی عداوتِ رسالت کا آئینہ دار ہو۔ تو بتانے لگے کہ میں ان میں موجود تھاکہ ایک دن قریش کے چوہدری حطیم میں جمع ہوئے او راُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا او رکہنے لگے: جتنا ہم نے اس شخص پر صبر کیا ہے، کسی او رپر کبھی ایسا صبر ہم نے نہیں دیکھا۔ اس نے ہمارے دانشوروں کو بے وقوف کہا اور ہمار باپ دادا کو بُرا بھلا کہا او رہمارے دین پر عیب لگایا او رہماری جماعت کو منتشر کیا اور ہمارےمعبودوں کو گالی دی۔ ہم نے اس کے بارے بہت زیادہ صبر کرلیا ہے۔اسی دوران وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا۔ آپ چلتے ہوئے آگے بڑھے یہاں تک کہ حجراسود کا استلام کیا اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے جب آپ کا گزر ان کے پاس سے ہوا تو وہ آپ کی باتوں میں عیب جوئی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کرنے لگے تو میں نے اس بات کے اثرات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر پہچان لئے پھر آپ آگے گزر گئے۔ پھر جب دوسرے چکر پر ان کے پاس سے گزرے تو اُنہوں نے پہلے جیسی حرکت کی۔ پھر میں ناگواری کے اثرات آپ کے
[1] صحیح البخاري مع فتح الباري: /161(4654)، تفسیر ابن کثیر: /3463