کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 34
’’اس نے مشرکوں کے بارے میں آپ کی معافی کو منسوخ کردیا ہے۔‘‘ ٭ امام ابن کثیر فرماتے ہیں : وکذا قال ابوالعالیة والربیع بن أنس وقتادہ والسدي إنما منسوخة بآیة السیف ویرشد إلی ذلك أیضاً قوله تعالی حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ [1] ’’یہی قول ابوالعالیہ، ربیع بن انس، قتادہ اور سدی کا ہے کہ آیت ِسیف کے ساتھ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے او راس کی راہنمائی اللہ تعالی کا یہ فرمان حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ بھی کرتا ہے کہ ’’یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے‘‘یعنی حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖکا ارشاد گرامی بھی اس کے منسوخ ہونے پر دلیل ہے۔‘‘ ٭ سورۃ البقرۃ کے مذکورہ مقام سے پہلے آیت نمبر 104 میں مشرکین او ریہود کی شانِ رسالت میں گستاخی کا ذکر ہے۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١. وَ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ’’اےایمان والو تم رَاعِنَا مت کہو اور انْظُرْنَا کہو اور سنو۔ اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘ یہودی اور مشرک لفظ راعنا کو بگاڑ کر راعیناوغیرہ بنا دیتے یعنی ہمارا چرواہا۔ یا او راس قسم کے توہین آمیز کلمات و معانی اختیارکرتے تو اللہ نے اہل ایمان کو تعلیم دیتے ہوئے فرمایا راعنا کی بجائے اُنظرنا کہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کا استعمال ہی درست قرار نہیں دیا جس سےتوہین رسالت کا پہلو نکلتا ہو۔ اور ایسےگستاخوں کے لئے عذابِ الیم کی وعید بیان کی اور تاحکم ثانی صبر وتحمل اور معافی و درگزر کا حکم دیا جو بعدازاں سیف والی آیات کےساتھ منسوخ کرکے گستاخوں کی سزا قتل تجویز کی۔ ٭ اور اسی گستاخی کاذکر سورۃ النساء کی آیت نمبر 46 میں کیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین بھی کرتے او ردین اسلام میں طعنہ زن ہوتے ہیں ۔ وہاں پر بھی اللہ نے ان پر اپنی لعنت کا ذکر کیا اور ملعونین کی سزا کے بارے پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ وہ واجب القتل ہیں ۔
[1] تفسیر ابن کثیر: ‎‎‎/3361