کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 33
’’ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کفار یہود و نصاری اور مشرکین کے بارے میں قتال کی اجازت دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ معافی و درگزر کو ترک کردیا۔‘‘
سورہ آلِ عمران کی مذکورہ بالا آیت ِکریمہ کی تفسیر صحیح حدیث سے واضح ہوگئی کہ عفو ودرگزر اور معافی کا حکم قتال فی سبیل اللہ کا حکم آنے سے قبل کا معاملہ تھا جب جہاد و قتال والا حکم آگیا تو پھر گستاخانِ اللہ او ررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معافی والا معاملہ منسوخ ہوگیا او ران کے قتل وقتال کا حکم وارد ہوگیا۔
اسی طرح مندرجہ بالا بحث میں سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 109 کا ذکر بھی آیا ہے:
٭ حبر الامہ ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی یہ تفسیر مروی ہے:
فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١. اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ’’معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لے آئے، یقیناً اللہ تعالی ہر چیز پر کمال قدرت والا ہے۔‘‘ یہ عفوو درگزر کا حکم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ساتھ منسوخ ہوگیا: فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ[1]’’مشرکوں کو قتل کرو جہاں بھی تم ان کو پاؤ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ[2]
’’اور ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ تعالی اور قیامت والے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے او رنہ ہی دین حق کو اختیار کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جو کتاب دیئے گئے یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں او روہ ذلیل وخوار ہوں ۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فنسخ ھذا عفوہ عن المشرکین [3]
[1] التوبة: 5
[2] التوبة:29
[3] ملاحظہ ہو: صحیفة علي بن أبي طلحة في تفسیر القرآن ص86 ، السنن الکبری للبیہقي:9 /11،دلائل النبوة للبیہقي:2 /582، تفسیر ابن کثیر:1 /335، التفسیر الطبري:2 /424، تفسیر الدر المنثور:1 /558 )علامہ سیوطی نے اسے ابن جریر طبری، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اوردلائل النبوۃ للبیہقی کی طرف منسوب کیا ہے)