کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 32
٭ اسی طرح امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ نے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سےمختصراً یہی روایت بیان کی ہے: ’’کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابه یعفون عن المشرکین وأھل الکتاب کما أمرھم اللّٰہ ویصبرون علی الأذی قال اللّٰہ تعالی: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا اَذًى كَثِيْرًا قال: وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتأول في العفو ما أمرہ اللّٰہ به حتی أذن اللّٰہ فیھم‘‘[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مشرکوں اور یہود و نصاریٰ سے اللہ کے حکم کے مطابق عفو و درگزر کرتے اوران کی تکالیف پر صبر کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور آپ یقیناً ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور اُن لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ، ایذا اور تکلیف دہ باتیں سنو گے۔‘‘اُسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے عفو و درگزر سے کام لیتے تھے جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا، یہاں تک کہ ان کے بارے اللہ نے اجازت دے دی۔‘‘ امام ابن کثیر فرماتے ہیں : وهٰذا إسناد صحیح یہ سند صحیح ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں حتی أذن اللّٰہ فیهم کے بعد یہ الفاظ ہیں :’’بالقتل فقتل اللّٰہ به من قتل من صنادید قریش‘‘ ’’یہاں تک کہ اللّٰہ نے ان کےمتعلق قتل کی اجازت دے دی پھر قریش کے سرداروں میں سے جن کو قتل کرنا تھا، اللہ نے قتل کردیا۔‘‘ ان احادیث ِصحیحہ میں حتی أذن اللّٰہ فیهم یہاں تک کہ ان کے متعلق اللہ نے اجازت دے دی، سے مراد قتال کی اجازت ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قوله: (حتی أذن اللّٰہ فیھم) أي في قتالھم أي فترك العفو عنهم [2] ’’حدیث میں حتی أذن اللّٰہ فیهم سے مراد ان کے ساتھ عفو و درگزر کو ترک کرکے قتال کرنے کی اجازت مراد ہے ۔‘‘ ٭ شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’حتی أذن فیهم‘‘ أي في قتالھم فترك العفو عنہم [3]
[1] تفسیر ابن أبی حاتم الرازي: ‎ ‎‎/8343 (4618) تفسیر ابن کثیر: ‎ ‎‎/160 2 [2] ‎ فتح الباري: ‎ ‎‎/2010 [3] ‎ تحفة الباري بشرح صحیح البخاري : ‎ ‎‎/485