کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 31
اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِيْرًا١. وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ [1]’’او ریقیناً تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی او ران لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا، ضرور بہت سی ایذا سنو گے اور اگر تم صبر اور تقویٰ اختیارکرو تو بلا شبہ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا١ۖۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ١ۚ فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١. اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ [2] ’’بہت سارے اہل کتاب چاہتے ہیں کاش وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے، اس کے بعد کہ حق ان کے لئے خوب واضح ہوچکا۔ سو تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر کمال قدرت والا ہے۔‘‘ اس کے بعد اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنی اس طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں : ’’وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتأول في العفو ما أمرہ اللّٰہ عزوجل به حتی أذن اللّٰہ فیھم فلما غزا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدرًا و قتل اللّٰہ به من قتل من صنادید قریش‘‘ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درگذر سے کام لیتے تھے جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا، یہاں تک کہ جب ان کے بارے اللہ نے آپ کو اجازت دی۔ پھر جب آپ نے غزوۂ بدر لڑا اور اللہ تعالیٰ نے اس غزوے میں جن قریش کے کافر سرداروں کو قتل کرنا تھا، قتل کرا دیا۔‘‘ پھر عبداللہ بن اُبی او را س کے بت پرست مشرک ساتھیوں نے کہا: یہ ایسا دین ہے جو غالب ہوکر رہے گا تو اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرلی اور اسلام میں داخل ہوگئے۔‘‘ [3]
[1] ‎ آل عمران:186 [2] البقرة:109 [3] ‎ دلائل النبوة:7‎ ‎‎/576 ،578، صحیح البخاري (4566) مع فتح الباري:10‎ ‎‎/17،صحیح مسلم:116 ‎‎‎/1798، مسنداحمد:5‎ ‎‎/202، تاریخ مدینة لعمر بن شبه: 1‎ ‎‎/358، السنن الکبری للنسائي (7502)، مسند الشامیین (268)، المصنف لعبد الرزاق(9784) تفسیر ابن کثیر: 2‎ ‎‎/160 ،161، تفسیر الدرّ المنثور: 1‎ ‎‎/557