کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 3
گیا ، دوسری طرف بیشتر عوام الناس نے نہ صرف اس قتل کو سراہا، بلکہ قتل کرنے والے ممتاز قادری کو پھولوں کےہار بھی پیش کئے۔ سینکڑوں وکلا نے عدالت میں پیشی کے موقع پر اس کے حق میں نعرہ بازی کی، پشاور کے تین سو وکلا نے اس کا کیس مفت لڑنے کی پیش کش کی، راولپنڈی اور اسلام آباد بار نے ممتاز قادری کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ کراچی میں تحریک ناموسِ رسالت کی کال پر عوام الناس کے ایک سیل رواں نے عظیم الشان ریلی نکالی۔ ممتاز قادری کے والد کی رہائی کے موقع پر ہزاروں لوگوں نے ان کا ایسا شاندار استقبال کیا کہ تاحد نگاہ افراد ہی افراد دکھائی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ 36 دینی وسماجی جماعتوں نے لاہور میں 30 جنوری کو ریلی اور عظیم احتجاجی جلسہ کیا۔
اب جب کہ اس وقوعہ قتل پر کئی روز گزرچکے ہیں، توجذبات اور ردعمل سے مغلوب ہونے کی بجائے اس امر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ایک طرف اس موقعہ پر سیکولر لابی کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو دوسری طرف سلمان تاثیر کے قتل اور ممتاز قادری کے اقدام کے بارے میں اسلامی شریعت سے رہنمائی لی جائے کہ اسلام ایسا معتدل ومتوازن دین اس اہم قانونی مرحلہ پر ہماری کیا رہنمائی کرتاہے؟ زیرنظر مضمون میں اُن اعتراضات وشبہات کو موضوع بنایا گیا ہے جو میڈیا پر بطورِ خاص ان دنوں اس واقعہ کے حوالہ سے نمایاں ہوئے:
کیا پاکستانی معاشرہ انتہاپسندی کی جانب گامزن ہے؟
اس سلسلے میں جو تشویش اندرون وبیرونِ ملک سب سے زیادہ پھیلتی نظر آئی، وہ یہی ہے ۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے لیکن اس کی حقیقت یہ نہیں جسے ہمارے میڈیا میں نمایاں کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے مذہبی طبقات میں انتہاپسندی فروغ پارہی ہے۔ درحقیقت پاکستان ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد سے عالمی قوتوں کے ایجنڈے پر سرفہرست ہے۔ گذشتہ دس سال کے عرصے میں پاکستان میں اسلام اور اہل اسلام کو بطورِ خاص نشانہ بنایا گیا ہے۔ افغانستان بظاہر امریکہ کا ہدف ہے لیکن حقیقی نشانہ پاکستان ہے، جس سےایٹمی قوت ہونے کے ناطے کھلم کھلا جنگ جوئی کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ اوباما کی ’پاکستان فرسٹ پالیسی‘ اب ایک کھلی حقیقت بن چکی ہے۔ پاکستان پر جو سماجی، تعلیمی، ثقافتی اور اقتصادی یلغار جاری ہے، اس کا ایک پہلو قانون توہین رسالت بھی ہے جو امریکہ کی امداد کے ساتھ اکثر ایک شرط