کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 29
کے نام پرروانہ ہوجاؤ۔اے اللہ ان کی مدد فرما!‘‘ یعنی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کو جب کعب کے قتل کے لئے روانہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہمراہ بقیع غرقد تک خود تشریف لے گئے اور اللہ کے نام پر اُنہیں روانہ کیا اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا فرمائی۔ پہلے شاتمانِ رسول کے لئے مسلمانوں کو عفو ودرگزر کرنے کا حکم تھا ! امام بیہقی رحمہ اللہ نے دلائل النبوة میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی جس روایت کا ذکر فرمایا، اس میں گستاخانِ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے صبر و تحمل کے متعلقہ دو قرآنی آیات کا ذکر ہے۔ ایک آیت ِکریمہ سورۃ آل عمران اور دوسری سورۃ البقرۃ میں ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تاحکم ثانی ان کے عفو ودرگزر کامعاملہ تھا پھر اللہ وحدہ لا شریک نے ان کے ساتھ قتل و قتال کا حکم فرمایا۔ خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے دلائل النبوۃمیں باب باندھا ہے: مبتدأ الإذعان بالقتال وما ورد بعدہ في نسخ العفو عن المشرکین وأھل الکتاب بفرض الجہاد[1] اسی طرح السنن الکبریٰ کی کتاب السیر باب مبتدأ الإذن بالقتال بھی ملاحظہ کریں ۔اعلانِ قتال کی ابتدا اور اس کے بعد مشرکوں اور یہود و نصاریٰ کی معافی، جہاد کی فرضیت سے منسوخ ہوگئی۔اس باب میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے پھر اس عفو و درگزر کے نسخ کے دلائل بیان فرمائے جن میں سے ایک مفصل صحیح حدیث وہ ذکر کی ہے جسے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گدھے پر سوار تھے جس پر فدک کی بنی ہوئی مخمل کی چادر پر زین کسی ہوئی تھی اور اُسامہ بن زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔ آپ بنو حارث بن الخزرج میں واقعہ بدر سے پہلے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے چلے تھے۔آپ کا گزر ایک مجلس کے پاس سے ہوا جس میں عبداللہ بن اُبی بن سلول بھی تھا اور اس وقت ابھی عبداللہ بن اُبی بن سلول نے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا۔اتفاق سے اس مجلس میں مسلمان،
[1] ‎ ‎‎/5762