کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 28
اوس و خزرج قبائل کے حلیف تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب مدینہ تشریف آوری ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کی اصلاح کا ارادہ فرمایا۔ایک آدمی مسلمان ہوتا تو اس کا باپ مشرک ہوتا۔ کوئی دوسرا مسلمان ہوتا تو اس کابھائی مشرک ہوتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مبارک پرمشرکین اور یہودانِ مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شدید قسم کی اذیت سے دوچار کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اس پر صبر و تحمل اور ان سے درگزر کرنے کا حکم دیا۔
انہی کے بارے اللہ جل شانہ کا فرمان نازل ہوا۔ ’’اور یقیناً تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی او ران لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا، ضرور بہت سی اِیذا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بلا شبہ یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔ ‘‘
اور انہی لوگوں کے بارے میں اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کی ’’بہت سارے اہل کتاب چاہتے ہیں ، کاش وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے، اس کے بعد کہ ان کے لئے حق خوب واضح ہوچکا سو تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لے آئے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قدرت والا ہے۔‘‘
جب کعب بن اشرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اذیت دینے سے باز نہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اس کے قتل کے لئے لشکر روا نہ کرو۔‘‘
2. حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے امام حاکم کی الإکلیل کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فقد أذانا بشعرہ وقوّی المشرکین)) [1]
’’اس نےہمیں اذیت دی اور مشرکوں کو تقویت پہنچائی ہے۔ ‘‘
3. ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام ابن اسحٰق نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ
إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مشٰی معهم إلی بقیع الغرقد ثم وجههم فقال: انطلقوا علی اسم اللّٰہ: اللّٰهم اَعِنْهم [2]
’’بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ بقیع غرقد تک چلے، پھر ان کو متوجہ کرکے فرمایا: ’’اللہ
[1] فتح الباري : /969
[2] فتح الباري : /997 بسندٍ حسن