کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 27
’’کعب بن اشرف یہودی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کررکھا تھا کہ وہ آپ کے خلاف کسی کی مدد نہیں کریں گے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑیں گے۔ پھر اس نے امان ترک کی اور عہد توڑا اور مکہ چلا گیا اور اعلانیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کرتے ہوئے آیا اور اپنے شعروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا اور گالیاں بکتا تھا اس لئے واجب القتل ہوگیا۔‘‘
لہٰذا کعب بن اشرف کو صرف نقضِ عہد کی سزا نہیں دی گئی بلکہ وہ گستاخِ رسول تھا اور اَشعار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں بکتا اور ہذیان گوئی کرتا تھا اور ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سے نقض عہد ہوجاتا ہے جیسا کہ پیچھے مفصل باحوالہ بحث گزر چکی ہے اور اس کی تائید درج ذیل روایات سے بھی ہوتی ہے:
1. کعب بن مالک بیان کرتے ہیں :
أن کعب بن الأشرف الیهودي کان شاعرًا وکان یهجو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و یحرض علیه کفار قریش في شعره ...... فأمر اللّٰہ تعالی رسوله والمسلمین بالصبر علی ذلك والعفو عنهم ففیهم أنزل اللّٰہ جل ثناءه وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا اَذًى كَثِيْرًا (آل عمران:186) وفیهم أنزل اللّٰہ: وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِه (البقرة:109) فلما أبیٰ کعب بن الأشرف أن ینزع عن أذی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأذی المسلمین وأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سعد بن معاذ أن یبعث رهطاً لیقتلوہ .... [1]
’’کعب بن اشرف یہودی شاعر تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بکواس کرتا تھا۔ اور اپنے شعروں میں قریش کے کافروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ملے جلے لوگ تھے۔ ان میں وہ مسلمان بھی تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت نے جمع کردیا تھا اور ان میں مشرکین بھی تھے جو بت پوجتے تھے اور اُن میں یہودی بھی تھے جو ہتھیاروں او رقلعوں کے مالک تھے اور وہ
[1] دلائل النبوة للبیہقي :3 /197 واللفظ له، سنن أبوداود (3000) الترمذي بحوالہ فتح الباري شرح صحیح البخاري:9 /96