کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 26
قانونِ الٰہی یہی ہے کہ ایسے ناپاک ملعون لوگ بُری سزا کے حقدار اور واجب القتل ہیں ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت 56 سے لے کر آیات 62 تک کا مفہوم ومراد یہی ہے۔
’اَذیت‘ سے مراد:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا حکم نامہ جاری کیا تو اس کی علت اور وجہ یہ بیان کی کہ فإنه قد آذٰی اللّٰہ ورسوله ’’اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے۔‘‘ [1]
٭بعض لوگ کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی اور آپ کے خلاف اہل مکہ کی معاونت کی، اس لئے اس کے قتل کا حکم جاری کیا گیا۔
یاد رہے کہ کعب یہودی نقض عہد کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو اور توہین کابھی مرتکب تھا ،اسی لئے آپ نے فرمایا: فإنه قد آذٰی اللّٰہ ورسوله
٭ امام مازری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنما قتله کذلك لأنه نقض عهد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وهجاه وسبه وکان عاهده أن لایعین علیه أحدًا ثم مع أهل الحرب معینًا علیه [2]
’’کعب بن اشرف کو اس لئے قتل کیا کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کو توڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی اور آپ کو گالی دی او راس کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی کی مدد نہیں کرے گا پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اہل حرب کا معاون ہوگیا۔‘‘
٭ محی السنۃ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وکان کعب بن الأشرف ممن عاھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن لا یعین علیه أحدًا ولا یقاتله ثم خلع الأمان ونقض العھد ولحق بمكة وجاء معلنًا معاداةً النبي یھجوہ في أشعارہ ویسبه، فاستحق القتل لذلك [3]
[1] صحیح البخاري(2510،1303،4037)، صحیح مسلم (1801)، سنن أبی داود (2768) السنن الکبری للبیہقي:7 /40 و9 /81، شرح السنة للبغوي:11 /43 :2692،المستدرك للحاکم:3 /434 (5841)
[2] شرح صحیح مسلم للنووي:12 /136، دارالکتب العلمیة، بیروت
[3] شرح السنة:11 /45، المکتب الإسلامي