کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 25
لئے رسوا کن اور ذلت آمیز عذاب و سزا کا بیان فرمایا۔اس آیت میں گستاخانِ رسول پر جو دنیا اور آخرت کی لعنت کا ذکر کیا گیا ہے تو یہاں لعنت سے کیا مراد ہے؟
2. امام ابن جوزی فرماتے ہیں :
ولعنھم في الدنیا بالقتل والجلاء وفي الآخرة بالنار [1]
’’دنیا میں لعنت سے مراد قتل او رجلا وطنی کی سزا او رآخرت میں آگ کی سزا ہے۔‘‘
امام عبدالرزاق رسفی فرماتے ہیں :
لعنتھم في الدنیا القتل والجلاء وفي الآخرة عذاب النار [2]
’’دنیا میں لعنت سے مراد قتل و جلاوطنی اور آخرت میں آگ کا عذاب ہے۔‘‘
راقم الحروف کے نزدیک ان کو ’دنیا میں لعنت‘ سے مراد قتل کی سزا دینا ہے، کیونکہ ایذائے رسول کی یہی سزا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین فرمائی ہے او رقرآن پاک کا سیاق و سباق اسی کی تائید کرتاہے۔ملاحظہ فرمائیے قرآنِ کریم کا سیاق وسباق:
قرآنِ حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ احزاب کی 56 نمبر آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام کا ذکر فرمایا ،پھر آیت نمبر 57 میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینے والوں کا ذکر کرکے دنیا و آخرت کی لعنت اور ذلیل کرنے والے عذاب اور سزا کا بیان فرمایا۔ پھر آیت نمبر 58 میں اہل ایمان کو ایذا دینے والوں کا ذکر کرکے اس کو بہتان اور صریح گناہ قرار دیا ۔آیت نمبر 59 میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ، بیٹیوں او رایمان والوں کی عورتوں کے پردے کا ذکر کیاتاکہ اُنہیں ایذا نہ دی جائے۔ آیت نمبر 60 میں ایسی حرکات سے باز نہ آنے والے منافقوں کا ذکر کیا اور ناشائستہ حرکات کرنے والے او رپروپیگنڈہ کرنے والے لوگوں پر آپ کے تسلط کا ذکر کیا اور نمبر 61 میں فرمایا :مَّلْعُوْنِيْنَ١ۛۚ اَيْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا یعنی ’’ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخان ملعون ہیں ، جہاں بھی پائے جائیں ، پکڑ لئے جائیں اور بُرے طریقے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں ۔‘‘ اور آیت نمبر 62 میں پھر اسے اللہ کی سنت او رقانون قرار دیا گیا ہے یعنی توہین رسالت کے بارے
[1] تفسیر زاد المسیر: /4833
[2] رموز الکنوز: /1946