کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 24
مندرجہ بالا آیت ِکریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم او راہل ایمان کو ایذا دینے والوں کا ذکر کیا ہے اور ایمان والوں کی ایذا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا میں فرق ذکر کیا ہے۔اہل ایمان کو بلا وجہ اذیت دینے کو بہتان اور واضح گناہ قرار دیا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا پر دنیا و آخرت کی لعنت اور ذلیل کرنے والا عذاب ذکر فرمایا۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی عام مومنوں کی گستاخی کی طرح نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالی کو ایذا ، تکلیف اور ضرر کوئی نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی اس کو کوئی ضرر لاحق ہوسکتا ہے تو پھر کیوں فرمایا: جولوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ؟ اللہ کی طرف ایذا کی نسبت کرنا دراصل بالخصوص اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا و تکلیف کو اللہ اپنی ایذا فرماتا ہے کیونکہ وہ تو قاہر،غالب اور ہر چیز پر قادرِ مطلق ہے او راس بات کی قرآنِ حکیم میں کئی ایک اَمثلہ وارد ہوئی ہیں جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ (محمد:7) ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ اس آیت ِکریمہ میں اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کو اپنی طرف منسوب کرنے سے مراد اس کا دین اور اس کے انبیاء علیہم السلام اوراولیاء کرام رحمہم اللہ اجمعین ہوتے ہیں ۔ یعنی اللہ کے دین کی مدد، اللہ کے انبیا کی مدد ، اللہ کے اولیا کی مدد کرنا درحقیقت اللہ کی مددکرنا ہے۔ایسے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت وتکلیف دینا اللہ کو اذیت و تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ 1. امام عزالدین عبدالرزاق بن رزق اللہ رسفی (متوفی 661 ھ) رقم طراز ہیں : أن المعنی یؤذون نبي اللّٰہ فجعل أذی نبیه أذی له تشریفًا لمنزلته [1] ’’یقیناً اس آیت ِکریمہ میں اللہ کو تکلیف دینے کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں تو اللہ نے مقام و مرتبہ عطا فرماتے ہوئےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دیا ہے۔‘‘ لعنت سے مراد: نیز اس آیت ِکریمہ میں گستاخِ رسول کو ملعون قرار دیا اور اس کے
[1] رموز الکنوز في تفسیر الکتاب العزیز:6‎ ‎‎/193، مکتبة الأسدي، المکة المکرمة