کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 22
4. قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ المعروف بابن العربی فرماتے ہیں : إذا طعن الذمي في الدین انتقض عہدہ لقوله ’’وإن نکثوا أیمانہم۔۔۔۔۔ فقاتلوا أئمة الکفر‘‘ فأمر اللّٰہ بقتلھم وقتالھم إذا طعنوا في دینکم [1] ’’جب ذمی دین میں طعنہ زن ہو تو اللہ کے فرمان ’’ وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ فَقَاتِلُوْۤا .... اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ‘‘[’’اور اگر وہ اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ‘‘ ’’اَئمہ کفر سے لڑائی کرو‘‘]کے مطابق اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے۔ جب وہ تمہارے دین میں طعن کریں تو اللہ نے ان کے ساتھ قتل و قتال کا حکم دیا ہے۔ 5. امام ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی رقم طراز ہیں : أکثر العلماء علی أن من سب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أھل الذمة أو عرض واستخف بقدرہ أو وصفه بغیر الوجه الذي کفر به فإنه یقتل۔۔۔۔ [2] ’’اکثر علما کا یہی کہنا ہے کہ اہل ذمہ (یہود و نصاریٰ) میں سے جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا تعریض کرے یا آپ کی قدر ہلکی جانے یا اپنے کفر کے علاوہ کسی چیز سے آپ کو موصوف کرے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ ہم اسے ذمہ یا عہد و پیمان نہیں دے سکتے۔‘‘ پھر امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں ڈھیل اختیار کرنے والے لوگوں کا ذکر کرکے دلائل وبراہین کے ساتھ ان کی تردید کی ہے۔ 6. علامہ علاء الدین علی بن محمد المعروف بالخازن (المتوفی725ھ) نے اپنی تفسیر لباب التأویل في معاني التنزیل جو ’تفسیر خازن‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس میں اس آیت کے تحت مذکورہ بالا مسئلہ تحریر کیا ہے۔ [3] 7. امامِ جلیل محی السنۃ حسین بن مسعود بغوی (المتوفی 516ھ) اپنی تفسیر معالم التنزیل المعروف تفسیر بغوی میں بھی اسی موقف کے حامی ہیں۔ [4] 8. امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی (المتوفی 597ھ) اپنی تفسیر زاد المسیر في
[1] أحکام القرآن:2‎ ‎‎/356، دارالکتاب العربي [2] الجامع لاحکام القرآن:8‎ ‎‎/54 [3] ملاحظہ ہو:7‎ ‎‎/339،ط، دارالکتاب العلمية، بیروت [4] 2‎ ‎‎/272، ادارہ تالیفات أشرفیة، ملتان