کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 21
یعنی جب کوئی یہودی یا عیسائی مسلمانوں کے ملک میں ذمی بن کر رہتا ہے اور جزیہ و ٹیکس اَدا کرتا ہے تو مسلمان اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اس کامسلمانوں کے ساتھ عہد و پیمان ہوتا ہے کہ وہ دین اسلام پرطعن نہیں کرے گا۔ جب وہ دین پر طعن کرتا ہے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو دشنام دینا وغیرہ تو پھرمسلمانوں پر اس کی حفاظت لازم نہیں رہتی۔ وہ نقض عہد کا مرتکب ہوجاتا ہے او راس کو قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ 2. امام فخر الدین رازی راقم ہیں : المسألة الثالثة: قال الزجاج ھذہ الآیة توجب قتل الذمي إذا أظہر الطعن في الإسلام لأن عہدہ مشروط بأن لا یطعن فإن طعن فقد نکث ونقض عھدھم [1] ’’تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ امام زجاج رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ آیت ِکریمہ ایسے ذمی کے قتل کو واجب کرتی ہے جب وہ اسلام میں طعن کا اظہار کرے۔ اس لئے کہ اس کا عہد اس بات کے ساتھ مشروط تھا کہ وہ طعن سے کام نہیں لے گا۔ تو اگر وہ طعن کرے تو اس نے عہد و پیمان توڑ دیا۔‘‘ علامہ رازی رحمہ اللہ نے امام زجاج کی بات کو نقل کرکے برقرار رکھا اور اس کی تائید فرما دی۔ آج کے تجدد پسند طبقہ کی اگر آنکھیں بند ہیں او راُنہیں یہود و نصاریٰ کی امدادقرآن فہمی سے عاری کئے ہوئے ہو، لیکن متکلم زمان او راپنے دور کے مایہ ناز مفکر علامہ رازی کو تو قرآن حکیم سے ایسے گستاخ یہودیوں اور عیسائیوں کا قتل واضح طور پردکھائی دے رہا ہے۔ 3. امام ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ اس آیت ِکریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’وطعنوا فی دینکم‘‘ أی عابوہ وانتقصوہ ومن ھاھنا أخذ قتل من سب الرسول صلوات اللّٰہ و سلامه علیه أو من طعن في دین الإسلام أو ذکرہ بتنقص ’’اور اللہ کا فرمان ’’اور وہ تمہارے دین میں طعن کریں ‘‘یعنی اس میں عیب نکالیں اور تنقیص کریں ۔ یہیں سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا حکم اخذ کیا گیا ہے یا جو بھی شخص دین اسلام میں طعن کرے یا تنقیص کے ساتھ اس کا تذکرہ کرے۔ ‘‘
[1] التفسیر الکبیر :5‎ ‎‎/535، دار إحیاء التراث العربي:15 ‎‎‎/234، ایران