کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 20
اللہ جسے چاہتا ہے توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے اور کمال حکمت والا ہے۔‘‘
ان آیاتِ بینات میں اللہ تعالیٰ نے نقضِ عہد کے مرتکبین اوردین اسلام میں طعن کرنے والے جیسے: اللہ کی گستاخی یا اللہ کے رسول کی گستاخی یا اسلا م کے کسی بھی مسئلے پر طعن وتشنیع سے کام لینے والے او راللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا پروگرام بنانے والے لوگوں سے قتل و قتال کا حکم دیا ہے۔
کفارِ مکہ نے دارالندوہ میں جمع ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ باکمال میں گستاخی کرتے ہوئے تین کاموں میں سے ایک کام کے کرگزرنے کا پروگرام بنایا ۔یا آپ کو قتل کیا جائے یا قید کردیا جائے یا مکہ سے نکال دیا جائے، جیسا کہ اس سے پچھلی سورۃ الانفال کی آیت نمبر 30 میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دیا ہےتو ان کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔
جس شخص کے دل میں محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم موجزن ہے، اُسے یہ آیات پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ اخراج الرسول، قتل الرسول اور اثبات الرسول کا ارادہ رکھنے والے گستاخوں کے ساتھ اللہ نے قتال کا حکم دیا ہے اور ذکر فرمایا ہے کہ ایمان والے لوگوں کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ اُن گستاخوں کو عذاب دینا اور رسوا کرنا چاہتا ہے اور جو لوگ ان گستاخوں کے خلاف صف بستہ ہوجائیں گے، ان کی نصرت و مدد اللہ تعالیٰ خود فرمائے گا او ران کے قتل پر اللہ ایمان والوں کے سینوں کو شفا او رٹھنڈک پہنچائے گا او ران کے دلوں کا غیض و غضب دور کرے گا، کیونکہ گستاخانِ رسول کو قلع قمع کرنے سے اہل ایمان کو سکون و اطمینان ملتا ہے اور دلوں کا غصہ اُترتا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تشریحات درج ذیل ہیں :
1. امام ابواسحٰق ابراہیم بن سری زجاج (المتوفی 311ھ) رقم طراز ہیں :
’’وھذہ الأیة توجب قتل الذي اذا أظھر الطعن في الإسلام لأن العھد معقود علیه بأن لایطعن فإذا طعن فقد نکث‘‘[1]
’’یہ آیت ِکریمہ ذمی (یہودی، عیسائی)کے قتل کو واجب کرتی ہے، جب وہ اسلام میں طعن کا اظہار کرے۔ اس لئے کہ اس کے ساتھ اس بات پر عہد تھا کہ وہ طعن و تشنیع سے کام نہیں لے گا، جب اس نے طعن کیا تو اس کا عہد ٹوٹ گیا۔‘‘
[1] معاني القرآن و إعرابه:2/3514، دارالحدیث، القاهرة