کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 17
شرائط و لوازمات وغیرہا، قرآن میں بیان نہیں کیے تو کیا پانچوں نمازوں اور اس کی ادائیگی کے طریقۂ کار کاانکار کردیا جائے گا کہ قرآنِ کریم میں اس کا بیان نہیں ہوا؟
اسی طرح مسافر، مریض، بچوں اور عورتوں کے نماز کے حوالے سے احکام کا قرآن حکیم میں ذکر نہیں ۔ اگر انسان فوت ہوجائے تو اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟اس کے غسل، کفن ودفن اور نمازِ جنازہ کے احکام کا ذکر اللہ کے قرآن میں نہیں ہے تو کیا جب ایسے افراد وفات پاجائیں تو ان کی لاشوں کو اسی طرح گلنے سڑنے دیا جائے اور اگر زمین کے اندر دفنانا ہے تو گڑھا کھود کر اوپر مٹی ڈال دی جائے؟ جنازہ نہ پڑھا جائے!صرف قرآن حکیم کو ہی دلیل شرعی ماننے والوں کا کیا یہی انجام ہونا چاہئے؟
ایتائے زکوٰۃ کا حکم بھی قرآن پاک میں ہے، لیکن کس کس مال پر زکوٰۃ فرض ہے اور کتنی فرض ہے اور کب ادائیگی کرنا ہے۔ رقم پر کتنی زکوٰۃ ہے؟ گائے، اونٹ، بھیڑ بکری کا نصابِ زکوٰۃ کیا ہے؟ سونا چاندی اور کرنسی کا کیا حساب ہے؟ اللہ کا قرآن اس سے بھی خاموش ہے۔
فریضۂ حج کا ذکر تو قرآن میں ہے لیکن حج کیسے ہوگا، اس کی حدود، فرائض اور طریقہ کار کیا ہے؟ حج کہاں سے شروع ہوگا؟ حج کے مہینے تو قرآن کی رو سے معلوم ہیں تو کیا شوال وذیقعد میں ہی حج ہوگا یا ذوالحج کے مہینے میں ہوگا؟احرام کیسا ہوگا، احرام کی حالت میں کون کون سے اُمور کا ارتکاب حرام ہے۔ طواف کا حکم ہے ، طواف میں کل کتنے چکر ہیں اور کہاں سے شروع کریں گے او رکہاں ختم کریں گے، اس پر اللہ کا قرآن خاموش ہے۔ الغرض قرآنِ پاک میں بے شمار احکام میں ان کی تفصیلات سے قرآن خاموش ہے تو کیا ان اُمور کا انکار کردیا جائے گا صرف اس بنیاد پر کہ ان کا حکم قرآن میں نہیں ہے؟
اہل اسلام کے ہاں اللہ کے قرآن کےساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث بھی شرعی دلیل و برہان ہے۔ قرآن کو سنت و حدیث سے علیحدہ کرکے سمجھنا اہل باطل اور صراطِ مستقیم سے گمراہ لوگوں کا شیوہ ہے۔
٭ خلیفۃ المسلمین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
سیأتي أناس سیجادلونکم بشبہات القرآن، خذوھم بالسنن فإن