کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 16
احکام وشرائع مولانا مبشر احمد ربانی
قرآن وحدیث میں شاتم رسول کی سزا
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت، عفت، عظمت اور حرمت اہل ایمان کاجزوِلاینفک ہے اور حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمانیات میں سے ہے اور آپ کی شانِ مبارک پر حملہ اسلام پر حملہ ہے۔ عصر حاضر میں کفار ومشرکین کی جانب سے نبوت ورسالت پر جو رکیک اور ناروا حملے کئےجارہے ہیں ، دراصل یہ ان کی شکست خوردگی اور تباہی و بربادی کے ایام ہیں ۔ آسیہ مسیح نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات پر گستاخانہ حملے کئے، اس کے بچاؤ کے لئے بعض دانشورانِ سوء اور نام نہاد مفکرین و متجددین الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیاپر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں او ریہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ گستاخِ رسول کی سزا کا ذکر قرآن میں نہیں ہے،تو اس سلسلے میں ہماری معروضات درج ذیل ہیں :
کیا احکام شریعت کے لئے قرآنِ کریم ہی کافی ہے؟
ایسے لوگ منکرینِ حدیث سے تعلق رکھتے ہیں اور حقیقۃً قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی تعظیم سے عاری اور کورے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن حکیم میں جس چیز کاذکرہو،صرف اسے ہی مانا جائے گا، احادیث و سننِ ثابتہ کو مدنظر نہ رکھا جائے گا، پھر بدعملی کی راہ ہموار ہوجائے گی، کیونکہ ارکانِ اسلام کا حکم تو اللہ کے قرآن میں موجودہے ،لیکن ان کی تفصیل سے قرآنِ حکیم خاموش ہے:
مثلاًاللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں اقامت ِصلوۃ کا حکم دیا ہے اورسورۃ النساء کی آیت نمبر 103 میں فرمایا ہے:اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا
’’بلاشبہ نمازمؤمنین پر مقررہ اوقات میں فرض کی گئی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس کی فرضیت اور اَوقات کا مجمل طور پر ذکر کیا ہے اور اس کی تفسیر نہیں بتائی۔نمازوں کی تعداد، اوران کے ابتدائی و انتہائی اوقات،ادائیگی کا طریقہ کار، اس کی