کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 14
ترین شخصیت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی تائید، اس تائید پر اصرار اور عملاً اس کے مرتکبوں کی حمایت تھا اور ظاہر ہے کہ یہ سب کوئی چھوٹے جرائم نہیں! احادیث میں عکل او رعرینہ کے بادیہ نشینوں کا قصہ آتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسلام سیکھنے کے لئے آئے۔ جب مدینہ کی آب وہوا ان کو راس نہ آئی توآپ نے اپنے چرواہے کے ساتھ اُنہیں بیت المال کے اونٹوں کا دودھ پینے کی تلقین کی۔ مدینہ کے مضافات میں کچھ دن رہنےکے بعد جب یہ لوگ صحت یاب ہوگئے تو جاتے ہوئے آپ کے چرواہے کو قتل کردیا اور بیت المال کے اونٹ ہنکا کر لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اُنہیں پکڑنے کو بھیجا اور گرفتار ہونےکے بعد رحمۃ للعالمین نے اُنہیں دردناک سزا سنائی، جو اسلامی تاریخ کی ایک سنگین سزا ہے: 1 اس جرم کے مرتکبین کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیے جائیں ، اور ان کو داغ کر خون کو تھمنے نہ دیا جائے۔ 2 ان کی آنکھوں میں آگ پر تپائی ہوئی سلاخیں پھیری جائیں ، جبکہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ گرم سلاخوں سے اُن کی آنکھیں پھوڑ دی جائیں۔ 3 تپتی ریت پر ان کو تڑپنے کے لئے چھوڑ دیاجائے۔ 4 ان کی پیاس کی شدت یہ تھی کہ زمین کو کاٹتے اور چاٹتے تھے، لیکن ان کو پانی نہ دیا گیا اور وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ عکل اور عرینہ کے لوگوں کی یہ دردناک سزا محض ارتداد کی نہیں بلکہ اس میں احسان فراموشی، مسلم چرواہے کا قتل، بیت المال کے اونٹوں کو ہنکا کر لے جاناوغیرہ تمام جرائم کی سزا شامل تھی جو رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت سے صادر ہوئی۔یہ واقعہ درجنوں احادیث میں بیان ہوا اور سنداً متواتر ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرم کی سنگینی کی بنا پر اس کی شرعی سزا میں بھی شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کا ایک معروف اُصول یہ بھی ہے جو اس فرمانِ نبوی میں بیان ہواہے: كل أمتي معافى إلا المجاهرين (المعجم الصغير للطبراني: 2 /237) ’’میری ساری اُمت کو معافی دی جاسکتی ہے مگر کھلم کھلا گناہ کرنے والے کو نہیں ۔‘‘ چوری چھپے زناکاری کرنے والے کی بہ نسبت اس زناکار کا جرم زیادہ سنگین ہے جو عوام