کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 13
وائسرائے ہند سے آپ عبد القیوم کی سزا میں تخفیف کا مطالبہ کریں ۔ علامہ اقبال نے پوچھا کہ’’ کیا عبد القیوم گھبرا گیا اوراس کے قدم ڈگمگا گئے ہیں ؟ اس کو کہو کہ میں جنت کو اس سے چند قدم کے فاصلے پر دیکھ رہا ہوں ۔‘‘ کراچی کے لوگوں کے مکرر مطالبے پر علامہ اقبال نے ایک تاریخ ساز رباعی کہی جو ’ضرب ِکلیم‘ میں ’لاہور وکراچی‘ کے نام سے موجود ہے: نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ قدر وقیمت میں ہے خون جن کاحرم سے بڑھ کر ہماری عدلیہ کو ممتاز قادری کے مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے، مسلمانان برصغیر کے جذبہ ایمانی، غیرت ملی اور بانیانِ پاکستان کی اس تاریخ ساز رہنمائی کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ سلمان تاثیر کے جرم کی سنگینی سلمان تاثیر کی سزائے قتل پر شریعت اسلامیہ میں ایک سے زیادہ آرا ہیں جن کی تفصیل ممتاز قادری کے اقدام کی شرعی حیثیت کے ضمن میں پیش کی جائے گی۔ تاہم اسلام جو جدید نظام ہائے عدل سے بڑھ کر ایک ایسا بھر پور اور مکمل عادلانہ نظام ہےجس کی قانونی جزئیات اور دقیق تصورات عالمانہ گہرائی اور گیرائی سے مالا مال ہیں ، اس میں جرم کی سزا کا تعین جرم کی نوعیت کے عین مطابق کیا جاتا ہے، نیزاس میں کسی جرم کے ردّعمل میں ہونے والےجرم کی سزا کا تعین پہلے جرم کی روشنی میں ہوتا ہے۔ سلمان تاثیر نے توہین رسالت ایسے حساس شرعی قانون کو کالا قانون قرار دیا، کھلم کھلا یہ ہفواتی دعویٰ کیا، ایک انتہائی ذمہ دار عہدے پر فائز ہوتے ہوئے کیا، اور توہین رسالت کی مجرمہ کی اپنے پورے کنبہ کے ساتھ تائید کی، اس کو معصوم قرار دیتے ہوئے اس سے اظہارِ ہمدردی کیا،اس کے جرم کو اپنے ذمہ لے لیا اور اس کو معافی کی ضمانت دی۔ جس کا اس کے سوا کیا مطلب ہے کہ اس نے توہین رسالت کے مجرموں کی حوصلہ افزائی کرکے اُنہیں قانونی پازپرس اور گرفت سے بالا تر کرنے کی کوشش کی۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو سلمان تاثیر کایہ جرم محض شریعت کے کسی حکم کے انکار تک محدود نہ تھا، بلکہ شریعت ِاسلامیہ کی اہم