کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 12
قائد اعظم جو اس وقت چوٹی کے مسلم وکیل تھے، اُنہیں علم دین شہید کےاقدامِ قتل کے دفاع کے لئے انہوں نے بلایا۔ قائد اعظم لاہور ہائیکورٹ میں ایک ہی بار پیش ہوئے او روہ غازی علم دین کے دفاع کا مقدمہ تھا۔ علم دین کو معافی تو نہ ملی اور پھانسی کی سزا ہوگئی لیکن اس سے برصغیر کے مسلمانوں کا جوش وجذبہ شعلہ جوالا کا روپ دھار گیا۔علامہ اقبال کی قیادت میں مسلمانوں کے پرزور مطالبے پر غازی علم دین کی میت کو میانوالی جیل سےلاہور منتقل کیا گیا۔ لاہور میں مسلمانوں کی نمائندہ شخصیات نے اس معاملہ میں عوامی جذبات کی قیادت کی، علامہ اقبال کو علم دین کا جنازہ پڑھانے کی دعوت دی گئی ۔مولانا ظفر علی خاں نے علم دین کو قبر میں اُتارا اور محب ِرسول اقبال علیہ الرحمہ نے یہ تاریخ ساز جملہ کہا کہ ’’ترکھانوں کا بیٹا ‎، پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔‘‘ آج موقع بے موقع ’قائد اعظم کے پاکستان‘ کی بات کی جاتی ہے۔ ان کی مزعومہ روشن خیالی کو دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مقتول گورنر نے بھی آسیہ مسیح کو معصوم قرار دینے والی پریس کانفرنس میں تین بار قائد اعظم کا حوالہ دے کر پاکستان کو روشن خیال بنانے کی بات کی ہے۔ تحریک ِپاکستان کی قیادت بشمول قائد اعظم کا اس معاملے میں موقف تو بالکل واضح ہے، توہین رسالت ایسے حساس مسئلہ پر قانون کو ہاتھ میں لینا تو کجا، جبکہ اس پر کوئی قانون ہی موجود نہ تھا،قتل کے مجرم کا پرزور دفاع قائد کے دلی جذبات کا بہترین عکاس ہے۔ سب بخوبی جانتے ہیں کہ جناح ایسے مقدمہ کی وکالت کی کبھی حامی نہ بھرتے جس سے وہ متفق نہ ہوتے۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اُنہیں علم دین کے دفاع کی دعوت بھی دی اور تحریک ِپاکستان کی قیادت کی دعوت بھی دی ۔ قیام پاکستان سے 18 برس قبل یہ واقعہ اس قومی رجحان اور ضرورت کی بھی بھرپور عکاسی کرتا ہے جس کےلئے پاکستان کی دھرتی حاصل کی گئی۔ علم دین شہید کے مقدمہ کے چند سال بعد،مارچ1934ء میں کراچی میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں نتھورام نامی ہندو کو ’ہسٹری آف اسلام‘ میں توہین رسالت کے ارتکاب پر ایک باغیرت مسلم نوجوان غازی عبد القیوم نے عین کمرۂ عدالت میں جج کے سامنے ذبح کردیا تھا۔ یہ واقعہ بھی بڑا ایمان افروز ہے جس میں قانون کو ہاتھ میں لیا گیا تھا۔اس موقعہ پر بھی اہل کراچی نے عبد القیوم کی حمایت میں ایک عظیم الشان جلوس نکالا اور کراچی کے عمائدین لاہور میں علامہ اقبال رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوئے اور اُن سے کہا کہ