کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 11
استوار ہوتا تو واقعتاً آج ممتاز قادری کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت قطعاً پیش نہ آتی اور اسلامیانِ پاکستان شاتمان رسول کو اس عدالتی نظام سے سزا دلوانے کاہی راستہ اختیار کرتے۔
پاکستان میں گذشتہ دنوں دہشت گردی اور اجتماعی قتل وغارت کے اس قدر سنگین واقعات پیش آئے کہ اگر کسی مغربی ملک میں ایسا کوئی ایک بم دھماکہ بھی ہوجاتا تو پوری حکومت مستعفی ہوجاتی۔ ان بم دھماکوں کے ذریعے پاکستانی قوم پر اجتماعی ہلاکت وغارت گری مسلط کردی گئی ہے، عوام اپنی لاشیں اُٹھا اُٹھا کر نڈھال ہیں او رظلم سہنے والوں کی آنکھیں رنج وغم سے پتھرا چکی ہیں ، اس کے باوجودکسی ایک واقعہ میں کسی ایک مجرم کوبھی قرارِ واقعی سزا نہ دی گئی۔ دہشت گردی کی عدالتیں اور وسیع وعریض نظامِ عدل کی ناکامی کی اس سے بڑی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ اس کے بجائے ان مجرموں کی روزانہ میل ملاقات، عدالتی حاضریاں اور پیشیاں ،گواہیاں ایسا مذاق ہے جس کو دیکھ کر متاثر ہ فرد کا خون کھولتاہے۔ اس نظا مِ عدل کی کسمپرسی کا اندازہ تو اس سے لگائیے کہ گورنر پنجاب جیسے بڑے عہدے کے فرد کو برسرعام قتل کردیا گیا، مجرم نے اعتراف بھی کرلیا اور معاملہ بڑا واضح ہے لیکن چار ہفتے ہونے کو آئے ہیں ، اور فیصلہ کا دور دو رتک کوئی امکان نہیں ۔ ہر طرف ابہام ہی ابہام اور تاخیر ہی تاخیر ہےحالانکہ فیصلہ میں تاخیر بھی تو انصاف کا قتل ہے۔ اس انگریز پرور نظامِ عدل سے مسلم معاشرے کبھی چین وسکون حاصل نہ کرسکیں گے۔ اگر دہشت گردی کے کسی حقیقی مجرم کو سرعام پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا تو آج پاکستان میں عوام کا خون اور معاشرے کا چین سکون اتنا اَرزاں نہ ہوتا۔
جب قانون موجود ہی نہ ہو، قانونی استثنا حاصل ہو یا سنگین جرم کے باوجود مظلومین کے لئے داد رسی کے دروازے بند ہوں اور انصاف میں بلاجواز تاخیر ہورہی ہو تو ایسے حالات میں توہین رسالت ایسا حساس مسئلہ ہے کہ مسلم عوام قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ غازی علم دین شہید کو بھی قانون سے داد رسی کی کوئی اُمید نہ تھی، جانے سے قبل باپ سے مکالمہ کرکے گیا اور اس کے باپ نے اس کو قتل کی سزا سے خبردار کردیا تھا، لیکن اس نے حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شاتم رسول کے ایک معاون راج پال کو، جس نے ’رنگیلا رسول ‘شائع کی تھی،قانون کو ہاتھ میں لیتےہوئےجہنم واصل کردیا۔ او ریہ ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے کہ اس نازک موقع پر لاہور میں علامہ اقبال رحمہ اللہ نے مسلمانانِ برصغیر کی قیادت کی۔