کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 10
ضرورت ہے۔اوّل تو اس قانون کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت اور دیگر مذاہب کی توہین ایک قابل سزا جرم بن جاتی ہے۔ ثانیاً، برصغیر کی ماضی قریب کے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ اس قانون کی غیرموجوگی یا غیر مؤثر ہونے کے دوران قانون کو ہاتھ میں لے کر گستاخِ رسول کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ اس قانون کی عدم تاثیر مسلم عوام کو کسی گستاخ رسول کا خاتمہ خود کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ غاز ی علم الدین شہید کے ہاتھوں واصل جہنم ہونے والا لاہور کا راج پال ہو یا کراچی کا نتھو رام، اُن کا قتل انہی حالات میں ہوا جب یہ قانون موجود نہیں تھا۔اور سلمان تاثیر کے حالیہ قتل کے پیچھے بھی اس قانون کے غیرمؤثر ہونے کی بنیادی وجہ موجود ہے۔ یہی بات مجاہد ناموسِ رسالت جناب محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب میں بھی لکھی ہے :
’’قانون توہین رسالت ان تمام لوگوں کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت ہے جن کے خلاف فردِ جرم ثابت نہ ہو۔ورنہ ماضی میں بھی مسلمان سرفروشوں نے ایسے موقعوں پر قانون کو ہاتھ میں لیا اور گستاخانِ رسول کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس قانون کے پاکستان میں نافذ ہونے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایسے ملزم کی سزا کا معاملہ افراد کے ہاتھوں کے بجائے عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آگیا ہےجو تمام حقائق اور شہادتوں کابغور جائزہ لےکر جرم ثابت ہونے کے بعد ہی کسی ملزم کو مستوجب ِسزا قرار دے گی۔‘‘
جناب قریشی صاحب نے قانون سازی ہوجانے کے بعد اس امر کو پاکستان کے لئے خوش کن قرار دیا ہے لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں قانون سے کھلم کھلا مذاق کیا جاتا ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی سرعام توہین کی جاتی ہے۔یہاں تو قانون موم کی ایسی ناک ہے جس کو ہرطرف موڑا جاسکتا ہے۔این آر او کے فیصلے سے کیا گیا مذاق ایک کھلی حقیقت ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کے روز ق لیگ کے ایم این اے وقاص اکرم سے کیپٹل ٹاک میں انٹرویو کیا گیا، ان کے چچا بھی اسی طرح اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے۔وقاص اکرم جو برسراقتدار ایم این اے ہیں ، کا کہنا تھا کہ سالہا سال کے عدالتی عمل کے بعد ہماری عدالتوں نے تمام مجرموں کو بری کردیا اور ہم اپنے چچا کے قاتلوں کو سزا دلوانے سے قاصر ہیں ۔ اس سے بڑھ کر پاکستان کے نظامِ عدل کا اور نوحہ کیا ہوسکتا ہے؟ سلمان تاثیر کا قتل موجودہ عدالتی نظام کے غیرمؤثر ہونے کی دلیل اور عوام کے اس پر بے اعتمادی کا استعارہ ہے۔ اگر پاکستان کے نظامِ عدل میں یہ قوت ہوتی اوروہ شریعت ِاسلامیہ کی رہنمائی پر کاملاً