کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 94
تحقیق و تنقید حافظ زبیر علی زئی٭
اِمام شافعی رحمہ اللہ اور مسئلۂ تدلیس
ماہنامہ ’محدث‘نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں التحقیق والتنقیح في مسئلۃ التدلیس کے نام سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں صاحب ِمضمون نے تدلیس کے حکم کے سلسلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کو بعض دلائل کی بنا پر مرجوح قرار دیا۔ مدلس کی روایت کے قابل قبول ہونے کے بارے میں امام شافعی اور دیگر ائمہ حدیث کا اختلاف ہے اور یہ مسئلہ اس لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ ان دو موقفوں میں سے کسی ایک کے ماننے پر اکثر روایات کے ردّو قبول کا انحصار ہے ۔حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ جو علوم حدیث پر گہری نظر رکھتے ہیں نے زیر نظر مقالہ میں سابقہ موقف پر تعاقب کیا ہے اور شائع شدہ مقالہ کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد، اپنے دلائل پیش کرکے امام شافعی کے موقف کو ہی اَرجح قرار دیاہے۔ (کامران طاہر)
روایتِ حدیث میں تدلیس یعنی تدلیس فی الاسناد کے بارے میں محدثین کرام کا مشہور مسلک ومذہب یہ ہے کہ جس راوی سے سند میں تدلیس کرناثابت ہو تو اُس کی عَنوالی روایت ضعیف ہوتی ہے، مثلاً شیخ اِرشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے لکھا ہے:
’’اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ قتادہ رحمہ اللہ مدلس ہے جیسا کہ آئندہ اس کی تفصیل آ رہی ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ مدلس کا عنعنہ موجب ِضعف ہے۔ لہٰذا اس کی سند کو صحیح کہنا محل نظر ہے۔ ‘‘ ( توضیح الکلام:۱/ ۱۳۰، دوسرا نسخہ ص ۱۳۷)
مولانا اَثری حفظہ اللہ نے مزید فرمایا: ’’ اور یہ طے شدہ اُصول ہے کہ مدلس کی معنعن روایت قبول نہیں ۔ ‘‘
( توضیح الکلام :۲/ ۷۶۵، دوسرا نسخہ ۱۰۳۰)
محترم اثری صاحب نے کئی مدلس راویوں کی مُعَنعن(عن والی)روایات پر جرح کی اور ان روایات کو غیر صحیح قرار دیا۔ مثلاً :