کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 9
ہے جو گناہوں اور کوتاہیوں میں بری طرح غرق ہیں ۔ان میں سے ایک ملکہ برطانیہ بھی ہے جس کے تقدس کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے۔ ٭ ایسا ہی تحفظ یہودیوں کے ہولوکاسٹ (ہٹلر کے دور میں یہودیوں کے خلاف ڈھائے گئے مظالم) کو بھی حاصل ہے جس میں یہودی جذبات کا احترام نہ کرنے والوں اور ایک تاریخی واقعہ کے بارے میں مطلوبہ اظہار نہ کرنے کو سنگین سزا کامستحق قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ سزا فرانس، جرمنی، ہنگری، ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں موجود[1] ہے۔ ٭ علاوہ ازیں ہرملک میں چند انسانوں کے بنائے ہوئے دستور کی مخالفت کرنے والےشخص کو ریاست کا باغی قرار دے کر آج کی ریاست اس سے جینے کا حق چھین لیتی ہے اور اسے موت کی سزا دیتی ہے۔[2] صد افسوس کہ کائنات کی سب سے عظیم ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی متعصب تہذیب وہ تحفظ دینے کی روا دار نہیں جو وہ اپنے دستور کی ’کتاب ِمقدس‘کو دیتے ہیں ۔ آج کی حکومتیں ریاست سے بغاوت کو تو قابل گردن زدنی قرار دیتی ہے لیکن مذہب سے بغاوت کو جرم نہیں سمجھتیں ۔ ٭ سیکولرزم کی مالا جپنے والی یہ مغربی ریاستیں آئے روز پاکستان کو تو توہین رسالت کے جامع قانون کے خاتمہ کی تلقین کرتی ہیں لیکن اپنے آپ کو ایک سیکولر ریاست باور کرانے کے باوجود اپنے ہاں عیسائیت کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنے اور اس کو برقرار رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں ۔ ان کی ’منتخب اخلاقیات‘ کا نوحہ لکھا جائے یا اُنہیں منافقت اور دھوکہ دہی کا مجرم سمجھا جائے۔ جیسا کہ امریکہ نے اپنے ہاں عیسائی حقوق کے تحفظ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور امریکہ کی سپریم کورٹ توہین مسیح سےمتعلق اپنے ایک فیصلہ[3] میں واضح طور پر یہ قرار دیتی ہے کہ ’’امریکہ میں چرچ اور سٹیٹ ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں ، لیکن دیگر مذاہب کے مقابلہ
[1] مزید تفصیل کے لئے : ترجمان القرآن: دسمبر2010ء ص10 [2] مثلاًدیکھئے: دستورِ پاکستان کی دفعہ6 [3] کیس كا نام : موکس بنام سٹیٹ