کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 88
٭ خاص شیعہ کی طرز پر اس کا الزامی جواب بھی ہوسکتا ہے کہ بقول ان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلافت ِعلی کے پہنچانے پر مامور تھے اور بقول ان کے آیت:
﴿بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَبِّکَ﴾ ’’جو کچھ تجھ کو اللہ کی طرف سے حکم پہنچا ہے وہ پہنچا دے۔‘‘
انہی معنی کے لیے نازل ہوئی تھی کہ خلافت ِعلی کی بابت جو تجھے حکم دیا گیا ہے، وہ لوگوں کو پہنچا۔ اگر تو نے نہ پہنچایا تو گویا تو نے نبوت کی تبلیغ نہ کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روکنے سے حضور ایسے بڑے ضروری کام سے جس کا ارشاد جناب ِباری تعالیٰ سے پہنچا ہوا تھا جس کے نہ کرنے پر تمام نبوت کی تبلیغ کالعدم ہوتی تھی، آپ نے لکھوانے میں تساہل فرمایا۔
اگر اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت مانع تھی تو صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی صلح کے مخالف تھے بلکہ زور سے اس مخالفت کو نیک نیتی سے ظاہر کرتے اور پھیلاتے تھے۔ مگر اس نازک موقع پر جہاں ایک طرف کفار کا ہجوم ہے اور دوسری طرح خود صحابی بھی رنج و ملول بیٹھے ہیں ، عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی کچھ پروا نہ ہوئی تو اس موقع پر جب کہ تمام حاضرین خدام ہیں ، اہل بیت سب حاضر ہیں ، عمر رضی اللہ عنہ کا اس قدر اثر ہواکہ حکم الٰہی کی تبلیغ سے خاموش ہوگئے۔ ہمارے خیال میں ایسا گمان شانِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں بدگمانی پیدا کرنے کا موجب ہے۔
٭ علاوہ ازیں شیعوں کی طرف سے اس دعویٰ پر کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کرم اللہ وجہہ کی بابت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کی وصیت فرمائی تھی، ایک حدیث یہ بھی پیش کی جاتی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (من کنت مولاه فعلي مولاه)
’’یعنی جس کا میں مولا ہوں ، علی بھی اس کا مولا ہے۔‘‘
چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب ایمانداروں کے مولا ہیں اور اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کرم اللہ وجہہ بھی سب کے مولا ہیں اور مولا کے معنی حاکم اور امیر کے بتاتے ہیں ۔ اسی حدیث کا تتمہ وہ الفاظ ہیں جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی طرف سے روایت کئے جاتے ہیں کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم من کنت مولاہ … الخ سن کر اُنہوں نے کہا تھا:
’’بخ بخ يا أبا الحسن أصبحت مولائي ومولا کل مؤمن ومؤمنة‘‘ ( مختصرا)
’’یعنی اے ابوالحسن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ! تجھے مبارک ہو کہ تو میرا اور ہرایماندار کا مولا ہوچکا ۔‘‘