کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 85
کے لیے ماتم کیا جاتا ہے یا اُن کے نقشِ قدم پر چلنا مقصدِ زندگی بنایا جاتا ہے؟ اس طرزِعمل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی بنیاد پر دو بڑے مذہبی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا۔
یہ با ت بھی غور طلب ہے کہ واقعہ کربلا کے حوالے سے مسلمانوں کے اندر رواج پاجانے والے یہ سارے اعمال شریعت کی نظر میں کیا حیثیت رکھتے ہیں : کیا یہ سب کچھ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے یا سنتِ حسینی ؓہے؟ تاریخی طور پر دیکھیں تویہ پہلو بھی خوب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۱۱ ہجری میں دنیاے فانی سے اس حال میں تشریف لے گئے کہ دین اسلام مکمل اور تمام تھا۔اس میں نہ اب کمی ہوسکتی تھی نہ اضافہ۔ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں عمل کئے یا احکام دیئے یا کچھ مسلمانوں کے کردہ اعمال کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے (گویا آپ کی خاموشی رضا مندی تھی) وہ سب سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بن گئے۔ یعنی سنت صرف وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال، احکام اور آپ کی رضا مندیاں ہیں ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دے دیا: (عليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين) (سنن ابن ماجہ: 42)
’’تم پر میری سنت پرعمل کرنا لازم ہے یا پھر خلفاے راشدین کی سنت۔‘‘
مزید برآں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(فمن رغب عن سنتی فليس مني)
’’جس نے میری سنت سے ہٹ کرکوئی عمل کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ (اور نہ ہی اس کا عمل مقبول ہے)(صحیح بخاری: 5063)
واقعہ کربلا وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۵۰ سال بعد محرم ۶۱ہجری میں پیش آیا جبکہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اپے دائرے میں بند اور مکمل ہوچکی تھی۔ سو واقعہ کربلا کے حوالے سے جو اعمال و افعال ثواب اور نیکی سمجھ کر انجام دیئے جاتے ہیں ، وہ کسی درجے میں بھی سنت نہیں کہلائے جاسکتے کہ بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوں بلکہ یہ واضح طور پر شریعتِ محمدی میں اضافہ اور ابتداع ہے۔ جس کا نتیجہ صرف اور صرف غضب ِخداوندی اور ناراضگی رسول ہے اور دنیا و آخرت دونوں کے لیے باعث خسران ہے۔ اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ عامۃ المسلمین اپنے علم و عمل میں اصلاح کریں اور دنیا وآخرت کے نقصان سے بچ جائیں ۔ واللہ الموفق!