کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 84
واقعہ کربلا کی یہ تاریخی حقیقت مختلف تاریخوں اور روایات سے اخذ کی گئی ہے اور شاہ معین الدین احمد ندوی اور ڈاکٹر حمید اللہ جیسے مسلم مؤرخین کی تحقیق کا نچوڑ ہے۔ عام مسلمانوں کے اندر اس حوالے سے شدید قسم کی افراط و تفریط پائی جاتی ہے اور تصور میں نہ آسکنے والے خود ساختہ جذباتیت پر مبنی قصے، کہانیاں تک مشہور کردی گئی ہیں جن کا تعلق چھوٹے معصوم بچوں اور اہل بیت کی عصمت ماب خواتین سے ہے۔ ان کی بھوک اور پیاس کو بڑے جذباتی انداز میں بیان کرکے جذبات کوبھڑکایا جاتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہ راستہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا خود منتخب کردہ راستہ تھا اور ان سب کو اس راہ میں آنے والی تکالیف اور مصائب کا خوب اندازہ تھا۔ وہ حق کے علمبردار، راہِ شہادت کے مسافر تھے۔ شہادت ان سب کی آرزو اور تمنا تھی۔ وہ شہادت ، جس کو پاکر مسلمان اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوش نصیب سمجھتا ہے اور بعد والوں کے لیے باعثِ رشک اور باعثِ مبارکباد ہوتا ہے اور پھر یہ سب مبارک ہستیاں جس مقدس ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت تھے کیا خود اُنہوں نے راہِ حق میں کم تکالیف اٹھائی ہیں ۔ اُنہوں نے اپنے اُسوۂ حسنہ سے اپنے اہل بیت اور اپنی تمام اُمت کو اسی پائے استقلال سے راہِ حق کے مصائب و مشکلات برداشت کرنے کا سبق دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت ہی بجا طور پر اس بات کے مستحق اور ذمہ دار تھے کہ باطل کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور اسوۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل سے زندۂ جاوید کرجائیں ۔ سو ہمیں فخر ہے کہ سیدناحسین ؓ اور ان کے اہل بیت کے اس عظیم کارنامے پر اور ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کے اُسوہ کو اپنائیں ۔ حق و باطل میں تمیز کرکے باطل سے ٹکراتے ہوئے حق کے لیے ڈٹ جائیں حتیٰ کہ جان کی بازی بھی لگانے سے دریغ نہ کریں ۔
فلسفۂ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ تو اصل میں یہ ہے کہ جس کی روح سے آج پوری اُمت یکسر طور پر محروم ہے۔ ہر سال محرم میں دکھاوے کے طور پر کچھ رسوم ادا کرلی جاتی ہیں جس میں سے کچھ کا تعلق رونے دھونے اور سوگ منانے سے ہے اور کچھ کا تعلق کھانے پینے اور کھلانے پلانے سے ۔ کیا شہیدوں کے لیے بھی رویا جاتا ہے جن کو حیاتِ ابدی نصیب ہوتی ہے؟ کیا شہیدوں